افسانچہ : زندگی ، سانپ سپیرے کا تماشہ

 

 افسانچہ : زندگی ، سانپ سپیرے کا تماشہ


آدم اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا ٹوٹے ہوئے مٹکے کے ٹکڑے سے زمین پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچ رہا تھا، جب اسے باہر گلی سے سپیرے کی مخصوص آواز سنائی دی۔ بارش کے بعد کی مٹی کی خوشبو   ابھی تک صحن میں پھیلی ہوئی تھی۔ وہ دوڑ کر ماں کے پاس گیا اور تھوڑی بہت ضد کے بعد چند سکے لے کر گلی کی جانب بھاگ گیا۔

سپیرا گلی کے عین بیچ میں بیٹھا تھا، اس کے اردگرد بہت سے بچے کھڑے تھے۔ پٹاری بند تھی اور وہ آنکھیں بند کر کے بین بجاتا جا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب سا سکون تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے پٹاری کھولی، اسی لمحے بچوں کا شور تیز ہوگیا، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ آدم نے بھی سانپ کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ کی طرح اس کی ایک جھلک بھی نہ دیکھ سکا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی گلی کے تیز بچے آگے نکل گئے اور ننھا آدم پیچھے رہ گیا، وہ کبھی دائیں دیکھتا، کبھی بائیں، مگر بے سود۔ ابھی یہی دھکم پیل جاری تھی کہ سپیرے نے اپنی مخصوص آواز کے ساتھ کچھ دیر بعد پٹاری بند کر دی اور بچوں سے پیسے وصول کرنا شروع کر دیے۔ آدم کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، اس کی آنکھوں میں ضبط کیے ہوئے آنسو تھے، اس نے خاموشی سے سکے سپیرے کو تھمائے اور روتا ہوا گھر کی جانب بھاگ گیا۔

چھپن سالہ آدم مصروف سڑک پر اپنی مہنگی ترین گاڑی میں اپنے دفتر کی جانب رواں دواں تھا۔ روزانہ دفتر آنے اور جانے کے دوران اس کے پاس یہی وہ لمحے ہوتے تھے جب وہ اپنے ساتھ کچھ وقت گزارتا تھا۔ آج اس کے دماغ میں اپنی ریٹائرمنٹ کے خیالات گردش کر رہے تھے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد میں اپنے سارے شوق پورے کروں گا، اپنی پسند کی کتابیں پڑھوں گا، روزانہ لمبی واک پر جاؤں گا اور اپنی آرٹ گیلری کو بھی زیادہ وقت دوں گا۔

گرمی آج زیادہ ہے، یہ سوچ کر اس نے گاڑی کا اے-سی تیز کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں ساری گاڑیاں ٹریفک لائٹ کے اشارے پر رک گئیں۔ آدم نے بھی اپنی کار روک دی۔ اسی دوران سڑک کے دوسری جانب اس نے ایک منظر دیکھا، ایک بوڑھا سا سپیرا اپنی پٹاری رکھے، آنکھیں بند کیے ہوئے بین بجا رہا تھا۔ آج اس کے ارد گرد کوئی خاص رش نہیں تھا، کچی آبادی کے دو تین بچے جمع ہو کر تماشہ دیکھ رہے تھے۔ آدم ماضی کی یادوں میں کھو گیا، اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری۔ اسے اپنا بچپن، اپنی گلی، اپنا گاؤں اور کچھ بچھڑے ہوئے لوگ شدت سے یاد آئے۔ سانپ سپیرے کا تماشہ آج اس کی نگاہوں کی حدود میں تھا۔ اچانک سپیرے نے بین بجانا بند کیا اور آہستگی سے پٹاری کھولنے لگا۔ آدم کی آنکھوں میں عجیب سا تاثر تھا، شاید وہ اداسی تھی، دلچسپی تھی، فرار تھا یا کچھ اور، وہ ٹکٹکی باندھ کر دم سادھے اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک، اسی لمحے، بتی نے اشارہ دیا اور تمام گاڑیاں چلنے لگیں۔ سپیرے کا تماشہ ایک کے بعد دوسری بڑی گاڑیوں کے رش میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

آدم اب بھی بے جان آنکھوں سے اسی جانب دیکھ رہا تھا جب اچانک اس کے پیچھے والی گاڑیوں کے بے چین ہارنز نے شور مچانا شروع کر دیا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ اس نے بھی تیزی سے اپنی گاڑی آگے بڑھا دی۔

 اگلے ہی لمحے چار بوجھل ٹائر ایک ادھیڑ عمر بینکر کو لیے شہر کی مصروف سڑک کا حصہ بن گئے اور چلتے چلتے کچھ ہی دیر میں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

 

(Sender ID: xv0***)


Post a Comment

2 Comments

  1. What a beautiful account of life😭💘💕🙏

    ReplyDelete
  2. Very deep, very true😥👏👏👏

    ReplyDelete