گندے پنکھے



کبھی کبھار کوئی ایک آدھ ایسا تبصرہ، ویڈیو یا تصویر آپ کی نظروں کے سامنے سے گزرتی ہے جو آپ کو کئی معاملات پر ایک نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ سوچا ایک ایسا تجربہ آپ کے بھی گوش گزار کروں۔

میری عمر تینتالیس سال ہے 

 ایک عام سا آدمی ہوں، اکثر سوچتا ہوں کہ یہی چھوٹے چھوٹے گناہ اور ثواب اپنے خالق کی بارگاہ میں لے کر جاؤں گا اور وہ اپنی شان کے مطابق مجھے معاف بھی کر دے گا، اس سے زیادہ باریکیوں میں جانے سے ڈر لگتا ہے مجھے۔

خیر، آتے ہیں اصل بات کی طرف۔

میری ایک بُری عادت یہ تھی کہ مجھ سے کسی دوسرے کی بد اخلاقی، چڑچڑاپن یا بے رخی ہرگز برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اگرچہ ایسے کمزور لمحے خود مجھ پر بھی آ جاتے ہیں کہ جب میں بھی چڑچڑا ہو جاتا ہوں لیکن کٹہرے میں ہمیشہ دوسرے کو ہی کھڑا کرتا ہوں۔ حالت یہ تھی کہ میں اس دکاندار کے پاس بھی نہیں جاتا تھا جس کی ہلکی سی بھی بد اخلاقی کا خوف ہو، چاہے زیادہ راستہ طے کر کے دوسرے کے پاس ہی کیوں نہ جانا پڑے۔

اس دوران کچھ عجیب و غریب لوگوں سے بھی سامنا ہوا۔ مثلاً ایک مرتبہ اپنے ہی خاندان کے ایک بڑی عمر کے شخص کو دیکھا جو اپنے گھر میں کوئی کام کروا رہے تھے۔ انہوں نے دروازہ بنانے والے مزدور کو نہایت رعونت سے ڈانٹ دیا۔ بیچارہ مزدور خاموشی سے دوبارہ کام کرنے لگا، اس کے چہرے پر گہری اداسی تھی۔ اگلے ہی لمحے میری نظر پڑی تو وہی شخص جس نے مزدور کو ڈانٹا تھا، اُس سے کہہ رہا تھا

مجھے معاف کر دینا، بلڈ پریشر کا مریض ہوں، غصہ آ جاتا ہے۔ اور یہ کہہ کر اُس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنی رقم موجود تھی، بغیر گنے اُس مزدور کی جیب میں ڈال دی اور کہا: ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔

میں یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ کیسے کیسے لوگ ہیں اس جہاں میں۔

خیر، آتے ہیں اصل بات کی طرف۔

ایک روز موبائل پر کسی دور کے جاننے والے نے گروپ میں ایک تصویر بھیجی جس پر ایک قول لکھا تھا۔ عموماً ایسے اقوال میں نظر اندر کر دیتا ہوں، لیکن جانے اس میں کیا عجیب کشش تھی، جانے کسی نے کس گہری کیفیت میں لکھا ہو گا، بہرحال اُس نے دل کو چھو لیا۔

وہ ایک گندے پنکھے کی تصویر تھی، اور ساتھ لکھا تھا

میرے گھر میں دو پنکھے ہیں، ایک نہایت چمکدار، صاف ستھرا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ چلتا نہیں ہے، بس خوبصورتی کے لیے لگا رکھا ہے۔ ایک اور پنکھا بھی ہے جو پرانا اور گندا ہے، اس کا رنگ جگہ جگہ سے اُکھڑ چکا ہے۔ باہر سے جو بھی مہمان آتا ہے، گندے پنکھے کی برائی اور صاف پنکھے کی تعریف کر کے جاتا ہے۔ میں ان کو کیا بتاؤں، جو چلتا ہے، وہ گندا ہی ہوتا ہے 

نہ جانے اس پیغام میں ایسی کیا بات تھی لیکن اس کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا۔ میری سوچ کا زاویہ ہی بدل گیا۔

میں نے اپنے خاندان، محلے، دفتر، گلی کوچے، سڑکوں بازاروں، ہر جگہ نظر دوڑائی تو مجھے بہت سے "گندے پنکھے" نظر آئے۔ جی ہاں، ایسے لوگ جنہوں نے کم عمری میں ہی بہت سی ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھیں۔ کوئی آٹھ، نو بچوں کو پال رہا تھا، کوئی اپنے سب بہن بھائیوں اور ماں باپ کو، کوئی اپنی بہنوں کی شادیوں کے لیے پیسے جمع کرنے میں دن رات سرگرداں تھا، کوئی اپنے بے روزگار بھائیوں کی اولاد کو بھی ساتھ ساتھ پال رہا تھا، کوئی خاتون شوہر کی وفات یا اُس کے طلاق دیے جانے کے بعد اپنے بچوں کو اکیلے سنبھال رہی تھی، تو کوئی مرد دو تین نوکریاں کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہا تھا۔

الغرض، مجھے ہر جانب کئی کئی گندے پنکھے نظر آئے، جن کی طبیعتوں میں برسوں کی تھکن اور ہر طرح کی سرد و گرم برداشت کر کے تلخی آ گئی تھی۔

دوسری جانب وہ لوگ بھی تھے جو اپنی زندگیاں نسبتاً آرام سے گزار رہے تھے۔ اُنہیں خود غرض کہا جائے، کمزور کہا جائے یا حقیقت پسند، بہرحال انہوں نے اپنے گرد ذمہ داریوں کا انبار نہیں لگا رکھا تھا۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جنہیں "گندے پنکھوں" نے کبھی گندا پنکھا بننے ہی نہیں دیا۔ ان کو معاشرے کی مشکلات سے بچا کر رکھا۔ جنہوں نے خود گندا پنکھا بننا گوارا کیا لیکن ان کو اپنی بے لوث شفقت کے حصار میں رکھا۔

بہرحال، اس کے بعد زیادہ تر ایسا ہوا کہ میں نے جب بھی کسی کی فطرت میں تلخی دیکھی، اُس کو گندا پنکھا پایا۔

کیا خیال ہے؟

Sender: (User-3xyxv)

 



 

Post a Comment

0 Comments