یہ
واقعہ میرے ساتھ اُس وقت پیش آیا جب میں کراچی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ میرا گھر
کافی دور تھا جس کی وجہ سے مجھے کافی بسیں بدل کر آنا جانا پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ
میں واپسی پر گھر جا رہا تھا کہ مجھے شدید پیاس محسوس ہونے لگی۔ سڑک سے کچھ ہی
فاصلے پر مجھے ایک آم کا جوس بیچنے والا ٹھیلا نظر آیا، بیچنے والے کی عمر تقریباً
18-19 سال تھی۔ میں نے ایک گلاس کی درخواست کی۔ گلاس کافی بڑا تھا، اس میں تازہ آم
میرے سامنے کاٹ کر ڈالے گئے تھے اور اس کے اندر چینی اور چمکتی ہوئی برف کے ٹکڑے
بھی ڈالے گئے تھے۔ بہت اچھی خوشبو آ رہی تھی۔ مجھے پیاس بہت شدید لگی تھی تو میں
نے 3 سانسوں میں ہی پورا گلاس پی لیا۔ پینے کے بعد جب جیب میں ہاتھ ڈالا تو میرے
ہوش اڑ گئے کیونکہ جیب میں پیسے ہی نہیں تھے۔ مجھے یاد آیا کہ میں پیسے یونیورسٹی
میں ایک ضروری کام پر خرچ کر چکا تھا۔ اب میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کروں، جوس
والے کو کیا کہوں۔ اُس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں بولا،
"وہ... میرے پاس پیسے نہیں ہیں... دراصل مجھ سے خرچ ہو گئے... میں کل دے دوں
گا۔"
ایسا پہلی بار ہوا تھا میرے ساتھ۔ میرا خیال تھا کہ وہ
عام ٹھیلے والوں کی طرح کافی چڑچڑا ہوگا اور یہ سن کر بھڑک اٹھے گا، شور مچائے گا،
یا کم از کم موڈ تو ضرور خراب کرے گا۔ آخر بیچ بازار میں اس کا ٹھیلا ہے، مجھے
کہاں ڈھونڈتا پھرے گا بعد میں۔
لیکن میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اُس نے ہلکے سے
مسکرا کر کہا، "چلو ٹھیک ہے بھائی، جاؤ- کوئی بات نہیں "۔
یقیناً وہ کسی نہایت اچھے خاندان کا لڑکا تھا۔ میں
شرمندہ چہرہ لیے خاموشی سے چلا گیا۔
اگلے روز میں نے اُس سڑک پہنچتے ہی اُسے پیسے دیے اور
سکون کا سانس لیا۔
کہنے کو تو یہ ایک غیر اہم، چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن آج جب میری عمر 51 سال ہے اور میں کئی طرح کے لوگوں سے مل چکا ہوں تو مجھے پتا چلا کہ اچھا اخلاق، قوتِ برداشت اور تمیز داری بہت اعلیٰ صفات ہیں جو کسی بھی انسان کی تکریم میں بے پناہ اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے بعد میں کئی کئی مرتبہ ہر عمر کے اے سی والے کمروں میں صوفوں پر بیٹھے چڑچڑے، بد مزاج اور بد تمیز افسران سے ملا تو مجھے کراچی کی شدید دھوپ میں کھڑا وہ سکون سے مسکراتا ہوا مہذب غریب محنت کش بارہا یاد آیا۔
2 Comments
Very true. Beautiful post. Dil chah raha hay apnay boss say share karain😁😂😎
ReplyDeleteGood post🥰
ReplyDelete