نوجوان بچیوں کے فن پارے

سچےواقعات و مشاہدات

"انگریزی سے ترجمہ" 
   نوجوان بچیوں کے فن پارے

چالیس سال کی عمر میں، (مغربی تعلیم حاصل کرنے کے بعد)، میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں اپنے محبوب شہر کوئٹہ، پاکستان میں اپنی بھتیجی کے ساتھ کسی فنون لطیفہ کی تقریب میں شرکت کروں گا۔ مجھے مدعو کیے جانے پر فخر محسوس ہوا، میں نوجوان مقامی فنکاروں کے کام کو دیکھنے کے لیے پرجوش تھا۔ محفل سادہ تھی، لیکن وہاں جو کچھ میں نے دیکھا وہ مجھے بے چین اور پریشان کرنے کے لیے کافی تھا۔ گیلری میں نوجوان بچیوں کے بنائے ہوئے فن پارے رکھے ہوئے تھے، اور ان میں سے اکثر نے ہماری ثقافت میں خواتین کے جبر کو اس انداز میں پیش کیا تھا جو حقیقی معنوں میں پریشان کن تھا۔ ایک خاص پینٹنگ نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کی: ایک بھیڑیے جیسے داڑھی والے مرد کی تصویر جو ایک عورت کو چھری مار رہا تھا، (جو اس سے معافی کی بھیک مانگ رہی تھی)۔ اس تصویر میں جو جذبات تھے وہ بہت شدید تھے، اس لیے میں نے اس نوجوان فنکارہ سے اس تصویر  کی تحریک کے بارے میں پوچھا۔ اس نے بتایا کہ " یہ تصویر ہماری ثقافت میں خواتین کی پست حالت کو ظاہر کرتی ہے۔ ہمیں کام کرنے، پڑھنے، مرضی کی شادی، حتیٰ کہ اپنی وراثت کا بھی کوئی حق نہیں ہے". میں نے پوچھا، "لیکن کیا آپ کو پڑھنے اور کام کرنے کی اجازت نہیں ہے؟" اس نے جواب دیا، "جی ہاں، مجھے ہے، مگر سب کو نہیں ہے۔ میں ان کے لیے آواز اٹھا رہی ہوں۔" جب میں نے شادی اور وراثت کے حقوق کے بارے میں پوچھا، تو اس نے کہا، "میرے والدین سمجھتے ہیں کہ میں 17 سال کی عمر میں شادی کے لیے بہت چھوٹی ہوں۔ شاید جب میں 20 سے زیادہ ہو جاؤں گی، تب وہ سوچیں گے"۔ وراثت کے بارے میں پوچھا، تو اس نے کہا، "میں ایک متوسط طبقے کے خاندان سے ہوں، ہمارے پاس وراثت کے لیے کچھ خاص نہیں ہے، اس لیے یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے"۔

خیر، مجھے ایک اور پینٹنگ نظر آئی، جس میں ایک عورت برقعہ پہنے ہوئے تھی، اور اس کا برقعہ اس کے ارد گرد اس طرح لپٹا ہوا تھا جیسے وہ کسی پنجرے میں قید ہو، اور اس کا چہرہ کسی پھنسے ہوئے پرندے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ جب میں نے اس نوجوان مصورہ سے اس کے کام کے بارے میں پوچھا، تو اس نے بتایا، "میں دکھانا چاہتی ہوں کہ خواتین پر ظلم کیا جاتا ہے۔ برقعہ اس ظلم کی علامت ہے۔ آزادی اس ظلم کی 'نفی' ہے۔" میں نے مزید پوچھا، "تو کیا برقعہ نہ پہنا آزادی کے مترادف ہے؟" اس نے سر ہلایا اور کہا، "ہاں، کیونکہ حجاب خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ خاندان خواتین کو اسے پہننے پر مجبور کرتے ہیں۔" اس کے جواب سے میں کچھ حیران ہوا۔ بچی خود با حجاب تھی۔ میں نے پوچھا، "لیکن پھر آپ خود حجاب کیوں پہنتی ہیں؟" اس نے جواب دیا، "میں اسے اس لیے پہنتی ہوں کیونکہ یہ مجھے مناسب لگتا ہے، اور یہ میرا انتخاب ہے۔" میں نے پوچھا، "کیا حجاب آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟" ایک مختصر توقف کے بعد اس نے کہا، "نہیں، میرے لیے نہیں۔" اس لمحے میں، مجھے ان کی سوچ میں تضاد کا احساس ہوا۔ خواتین کے حقوق کے لیے ان کا جو جذبہ تھا، اس کے باوجود ان نوجوان فنکاروں کے خیالات میں وضاحت اور ہم آہنگی کی کمی تھی ۔ ان کا فن، جو خواتین پر ظلم کے موضوع پر مرکوز تھا ( اور لبرل ازم کے تحت اسے پیش کیا گیا تھا)، وہ انتشار کا شکار تھا اور اس میں گہرائی کی ، تخلیقی بصیرت کی کمی تھی۔ ان کے فن میں ابہام اور آزادی کے بارے میں ایک سادہ سا فہم دکھائی دیتا تھا، جو آزادی کو روایتی اقدار کے انکار کے مترادف سمجھتا تھا( ان اقدار کی پیچیدگی کو سمجھے بغیر)۔

میں گیلری سے مایوس ہو کر نکلا۔ ہماری معاشرت نے خواتین کو تعلیم، کام اور وراثت کے حقوق کئی مغربی معاشروں سے بہت پہلے دیے تھے، (جب وہ ان مسائل کو حل کرنے میں مصروف تھے)۔ پھر بھی، یہ نوجوان فنکار، جو خود ان حقوق سے مستفید ہو رہے تھے، اپنے ثقافتی پس منظر کو غلط سمجھ رہے تھے اور اسے ایک سادہ سی مظلومیت کی کہانی میں محدود کر رہے تھے، ( اس کے وسیع تر تناظر کو سمجھےبغیر۔) جو چیز مجھے سب سے زیادہ پریشان کر رہی تھی وہ ان میں تنقیدی سوچ کی کمی تھی۔ وہ "لبرل ازم" کے ایک ورژن کو فروغ دینے پر اتنی مرکوز تھیں کہ ہماری ثقافت کے گہرے، مقدس اور پیچیدہ پہلوؤں کو پہچاننے میں یَکسَر ناکام رہیں۔ کئی لحاظ سے، ان کے خیالات بیرونی نظریات کی بے ترتیبی کا عکس لگتے تھے۔ بظاہر وہ اسی ابہام کو پھیلا رہی تھیں جس کے خلاف وہ آواز بلند کرنے کا دعویٰ کرتی تھیں ۔ یہ ایک واضح یاد دہانی تھی کہ بدقسمتی سے کس طرح بیرونی اثرات انسان کی اقدار کے بارے میں تصورات کو آسانی سے بدل سکتے ہیں۔

(Sender: Shee**)

 

Post a Comment

0 Comments