
یہ واقعہ میرے ساتھ 16 یا 17 سال پہلے پیش آیا، لیکن آج بھی اس کو سوچ کر کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔ اُس وقت میں تقریباً 20 سال کا تھا۔ لیکن 17 سال سے زیادہ کا نہیں لگتا تھا۔ ایک روز میں اپنی گاڑی چلاتے ہوئے اپنی یونیورسٹی جا رہا تھا، سب کچھ بالکل ٹھیک تھا، میں نے اپنا پسندیدہ انگلش گانا لگایا ہوا تھا اور موسم سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک سامنے سے ایک تیز رفتار وین آئی اور اچانک میری گاڑی کو ہٹ کر کے گزر گئی۔ میں آج بھی سوچتا ہوں تو سمجھ نہیں آتا کہ میری غلطی کیا تھی، وین والا بہت بے احتیاطی سے تیز چلا رہا تھا، سڑک پر رش نہیں تھا۔ وہ انتہائی غصے سے وین کھڑی کر کے اُترا، میری گاڑی کی جانب آیا، (اللہ کے فضل سے میں خود ٹھیک تھا ورنہ میری گاڑی تو دوسری طرف سے تقریباً پچک گئی تھی۔) بہرحال، وہ وین ڈرائیور آیا، اُس کے ساتھ کوئی 3، 4 لوگ اور بھی تھے، اُس نے آتے ہی کہا کہ یہ کوئی لا ابالی چھوٹی عمر کا لڑکا ہے جو کسی بڑے کی گاڑی لے آیا ہے، وین ڈرائیور اور اُس کے ساتھ کے آدمی سب بہت ہٹّے کٹے اور غصے والے تھے، میں نے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ اُن میں سے ایک نے کہا جانے دو، اللہ کا شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی یہ جوان زخمی ہوا ہے۔ لیکن وین ڈرائیور نے کہا کہ ایسا پہلے بھی ہوا ہے میرے ساتھ، اس کے گھر والے کوئی مسئلہ بنا سکتے ہیں، میں فیصلہ کر کے جاؤں گا۔ مجھے زیادہ تو سمجھ نہیں آئی(حالانکہ میں پشتو اچھی خاصی سمجھ لیتا ہوں۔) کیونکہ میں انتہائی پریشان تھا، مجھے گاڑی کی حالت دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں زندہ ہوں۔ مجھے بس اتنا سمجھ آیا کہ وہ کوئی تاوان مانگ رہا تھا اپنی وین کے آگے والے حصے کے کچھ نقصان کا۔ بہرحال، آہستہ آہستہ دکاندار جمع ہوئے اور وین والوں کو اپنے ساتھ ایک طرف کونے میں لے گئے؛ وہ غالباً ان کو جانتے تھے، جب کہ میں چونکہ اکیلا تھا اور نہ ہی میرا کوئی جاننے والا تھا، میں اپنی گاڑی کی سائیڈ پر زمین پر بیٹھ گیا، مجھے پینک اٹیک بھی اکثر پڑتے تھے، مجھے ٹینشن شروع ہوگئی کہ اگر پینک اٹیک کنٹرول سے باہر ہو گیا تو مجھے کون سنبھالے گا، میرے والد صاحب بھی انتہائی سخت مزاج انسان تھے، میں نے سوچا، وہ تو الٹا مجھے ہی مورّدِ الزام ٹھہرا دیں گے۔ میرا فون بھی گاڑی میں کہیں غائب ہو چکا تھا، مجھے یاد ہے ایک اجنبی سبزی والے نے اپنا فون دے کر کہا کہ آپ گھر اطلاع دے دیں۔ میں نے اُس کا بے حد شکریہ ادا کیا- گھر فون کیا، بہن نے اُٹھایا، خود کو بمشکل کنٹرول کر کے اُس کو بتایا کہ بھائی کو اس سڑک پر بھیج دو، گاڑی خراب ہو گئی ہے اور یہ کہہ کر فون واپس کر دیا۔ اب میں سڑک پر اپنی گاڑی کی حالت دیکھ کر شدید اذیت کے عالم میں بیٹھا تھا، وین والوں کی تیز آوازیں سڑک کے اُس پار سے میرے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ میں نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے زور سے پکڑا اور خدا کو یاد کرتے ہوئے کچھ دیر تک زمین پر ہی بیٹھا رہا۔ وین سائیڈ پر ہی کھڑی تھی، مجھے لگا وہ خالی ہوگی لیکن پھر مجھے محسوس ہوا کہ کوئی وین سے مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں نے دیکھا وہ ایک ضعیف خاتون تھیں جنہوں نے سفید رنگ کا شٹل کاک برقعہ پہنا ہوا تھا جو افغانستان اور ہمارے کے پی کے میں خواتین پہنتی ہیں۔ انہوں نے اپنا چہرہ نہیں ڈھکا تھا۔ وہ کافی پیار سے میری جانب دیکھ رہی تھیں۔ اتنے میں ایک عجیب بات ہوئی، وہ گاڑی سے باہر اُتریں، اور میری جانب بڑھنے لگیں۔ میں حیران ہوا۔ وہ قریب آئیں۔ میرے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ میں لیا۔ میرے ماتھے کو بہت پیار سے بوسہ دیا۔ اور پشتو میں کہا "اللہ خیر کرے گا بیٹا، تم پریشان مت ہو"۔ اس کے بعد وہ واپس وین میں بیٹھ گئیں۔ آپ سوچ نہیں سکتے ان دادی اماں کے اس چھوٹے سے جملے اور پیار کے انداز نے مجھ بے جان وجود میں گویا ایک روح پھونک دی تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس وقت اس کے پیار اور دعا کی اشد ضرورت تھی۔ میں اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنے لگا اور باقی کے معاملات کچھ اعتماد، کچھ مثبت انداز سےحل کرنے کے قابل ہو گیا۔ اُس دوران وین والے گروپ کا ایک لڑکا، جو غالباً ان ضعیف دادی اماں کا پوتا تھا، وہ آیا اور دادی کو گھور کر دیکھنے لگا لیکن دادی اماں نے اُس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ خیر بعد میں میرے بھائی جان اور ایک کزن آگئے تھے اور معاملہ اللہ کے فضل سے حل ہوگیا۔
اس واقعہ کا میری زندگی پر بہت گہرا اثر ہوا۔ میں دوسروں میں آسانیاں بانٹنے والا بن گیا۔ اب میں جہاں بھی کسی کو پریشانی اور اذیت میں دیکھتا ہوں، غیر ارادی طور پر سب سے پہلے اُسے پرسکون کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
(Sender: H***)
1 Comments
I wanna hug that pyari dadi jaan🥰💘👌👌👌
ReplyDelete