آس نگر کے پلیٹ فارم پر ایک ٹیچر کا خوبصورت قصہ پڑھ کر مجھے بھی ریٹائرمنٹ سے پہلے کے بہت سے واقعات یاد آگئے۔ سوچا ان میں سے ایک آپ لوگوں کو سناؤں۔
کافی سال پہلے کی بات ہے، میں لڑکیوں کے کالج میں کیمسٹری کی ٹیچر تھی۔ بہت سے اسٹوڈنٹس زندگی میں آئے اور چلے گئے لیکن ایک بچی ہمیشہ یاد رہے گی۔ اس کا نام غالباً یاسمین تھا۔ کلاس کی زیادہ تر بچیاں پڑھنے میں بہت اچھی تھیں۔ موبائل کا زمانہ نہیں تھا، لہٰذا آج کل کی خرافات سے دور رہتی تھیں۔ البتہ، شعر و شاعری کا شوق عام تھا۔ یاسمین سب بچیوں میں نمایاں تھی۔ اس کا ہوم ورک کم ہی مکمل ہوتا تھا۔ ٹیسٹ وغیرہ میں بمشکل پاس ہوتی تھی۔ ہاں، سنوارنے کا اسے بے حد شوق تھا۔ آنکھوں کا میک اپ تو اس انداز سے کرتی تھی کہ بالکل کوئی ہیروئن لگتی تھی۔ بچی خوبصورت تھی، اس پر میک اپ بھی بہت سجتا تھا۔ چونکہ میرا موقف یہ تھا کہ بچیوں کو کالج سادگی سے آنا چاہیے، لہٰذا مجھے اس کا فیشن اور پڑھائی میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ مجھے باقی بچیوں کے مقابلے میں اُس میں کوئی قابلِ ذکر خوبی نظر نہیں آتی تھی جس کی بنا پر وہ زندگی میں کوئی مقام حاصل کر سکے۔ میں اسے اکثر بھری کلاس میں ڈانٹ دیتی تھی، کبھی میک اپ پر، کبھی ہوم ورک نہ مکمل ہونے پر۔ وہ آگے سے خاموش رہتی تھی۔ اس وقت کے بچے اساتذہ کا بہت ادب کرتے تھے۔
خیر، وقت گزرتا رہا، ایک روز کیمسٹری لیب میں پریکٹیکل کے دوران میرے بازو پر تیزاب گر گیا، کچھ چھینٹے چہرے پر بھی آ گئے۔ اللہ کا شکر ہے وہ زیادہ کنسنٹریٹڈ نہیں تھا کہ جلد جل جاتی لیکن اچانک جلد کا رنگ بدل گیا، شدید جلن شروع ہوگئی، سوئیاں سی چبھتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ میں نے خوف کے مارے رونا شروع کر دیا۔ لیب میں موجود سب بچیاں ایک دم جیسے سکتہ میں آگئیں۔ وہ سب کھڑی ہو کر وحشت ناک آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ کچھ نے رونا شروع کر دیا۔ اسی دوران یاسمین آگے بڑھی اور مجھے بازو میں ایسے تھام لیا جیسے وہ کوئی بڑی اماں ہو اور میں کوئی بچی، حالانکہ اس کی عمر کوئی 17 کے قریب ہو گی اور میری تقریباً 36 سال تھی۔ اس دوران وہ بہت پیار سے کہنے لگی، کچھ نہیں ہوا میم، کچھ بھی نہیں ہوا۔ بس ابھی ٹھیک ہو جائے گا، سب کچھ ۔ میں نے گھبرا کر کہا، میرا چہرہ، میرا چہرہ، دیکھو خراب تو نہیں ہوا میرا چہرہ؟ اس نے دوڑ کر اپنے پرس سے میک اپ والا آئینہ نکالا اور مجھے دکھایا اور کہا، نہیں نہیں، آپ بالکل ٹھیک ہیں میم، مت پریشان ہوں، بس بازو کا رنگ کچھ لال ہو گیا ہے، چہرہ بالکل ٹھیک ہے آپ کا، بازو بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ باقی لڑکیوں کو بھی آنکھ کے اشارے سے منع کر رہی تھی کہ پریشانی نہ پھیلاؤ۔ اس نے ایک لڑکی کو پرنسپل کے دفتر بھیجا کہ میم کو قریب ترین کلینک لے جانا ہے۔ کلینک کا نام سن کر مجھے فوراً اپنے شوہر کا خیال آیا، وہ ایک انتہائی سخت گیر انسان تھے اور میں ان کو بتائے بغیر کہیں نہیں جا سکتی تھی۔ بہر حال، پرنسپل صاحبہ ایک بہت نفیس خاتون تھیں، انہوں نے کہا میں خود اس سے بات کر لوں گی۔ تھوڑی دیر بعد ایک گاڑی کا بندوبست کیا گیا جس میں یاسمین، ایک اور ٹیچر اور پرنسپل میرے ساتھ تھیں۔ یاسمین سارے راستے اپنے دوپٹے سے میرے چہرے اور ہاتھوں کو ہوا دیتی رہی۔
معمولی پٹی کے بعد میں واپس کالج آگئی اور ان سب کی، خصوصاً یاسمین کی بہت شکر گزار تھی۔ سچ ہے کہ دوسری کئی خوبیوں والے لوگ تو بہت مل جاتے ہیں لیکن مضبوط اعصاب والے، پُرخلوص لوگ خال خال ملتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ میری زندگی کے اس واقعے نے مجھے بہت بڑا سبق سکھایا۔ ہر انسان اپنی منفرد خوبیوں کے ساتھ پیدا ہوا ہے اور بہت خاص ہے۔ یہ ہم ہی ہیں جو سب کو کچھ مخصوص پیمانوں پر ہی پرکھتے ہیں اور ساری عمر اس وجہ سے دوسروں کو حقیراور خود کو ان سے بہتر سمجھتے رہتے ہیں۔
1 Comments
😢😢😢💞💞💞❤
ReplyDelete