
آس
نگر میں ایک اسٹوڈنٹ کا واقعہ پڑھا تو سوچا کہ میں بھی اپنی زندگی کا ایک واقعہ
لکھ کر بھیجوں، امید ہے آپ اسے شائع کریں گے :)
یہ کچھ سال پرانی بات ہے جب میں اسٹوڈنٹ تھی۔ اُس وقت
ہماری ایک ٹیچر تھیں جن کا نام مس زیبا تھا۔ مس زیبا ایک انتہائی سادہ طبیعت اور
شفیق ٹیچر تھیں۔ جہاں باقی ٹیچرز روز نئے نئے لباس، سینڈلز اور میچنگ پرس پہن کر
آتی تھیں، مس زیبا چند مخصوص لباس پہنتی تھیں۔ بالوں کا اسٹائل بھی بہت نفیس اور
سادہ سا تھا۔ وہ کم عمری کا دور تھا، ہم میں سے کچھ سہیلیاں اکثر ان کی سادگی کا
مذاق اُڑاتی تھیں اور کہتی تھیں کہ شاید مس غریب ہیں یا کنجوس، یا پھر ان میں کوئی
بوڑھی روح ہے۔ میں بھی سوچتی تھی کہ مس اتنی سادہ کیوں ہیں۔ یہاں یہ بتاتی چلوں کہ
مس زیبا تمام ٹیچرز سے زیادہ ذہین تھیں، اور پڑھاتی بھی سب سے اچھا تھیں۔ ہم اکثر
ان کے علم پر حیران رہ جاتے۔ ان کی یادداشت بھی کمال کی تھی، اکثر اسٹوڈنٹس کو شک
تھا کہ شاید انہوں نے قرآن پاک حفظ کیا ہوگا، لیکن چونکہ وہ اپنی زندگی کی ذاتی
باتیں کبھی نہیں بتاتی تھیں، لہذا یہ بات راز ہی رہی۔
انہی دنوں ہمارے گھر کے مالی حالات والد کے انتقال کے
بعد کچھ زیادہ بہتر نہیں رہے۔ بھائی اگرچہ کما رہے تھے لیکن وہ خود بھی شادی شدہ،
بچوں والے تھے اور گھر کا خرچ بھی اُٹھا رہے تھے۔
امتحانات شروع ہوگئے تھے اور ہیڈ کی طرف سے سختی سے کہا
گیا کہ جنہوں نے فیس نہیں دی، انہیں امتحان کے کمرے سے باہر نکال دیں اور پیپر نہ
دینے دیں۔ میں یہ سن کر بہت پریشان ہوگئی اور سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کروں گی۔ میری
فیس باوجود کوشش کے میری امی جمع نہیں کر پائیں تھیں۔ خیر امتحان کا دن آیا، ٹیچر
نے مجھے آہستگی سے کہا کہ "بیٹا آپ امتحان نہیں دے سکتیں، آپ کا نام ان بچوں
کی لسٹ میں ہے جن کی فیس ادا نہیں ہوئی ہے"۔ شکر ہے کسی اسٹوڈنٹ نے نہیں سنا،
سب اپنا پرچہ کرنے میں مصروف تھے۔ میں خاموشی سے کلاس سے نکل آئی۔
مجھے پریشانی میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، میں کلاس کے
باہر ہی کھڑی رہی۔ اتفاق سے اسی دوران مس زیبا وہاں کسی کام سے گزر رہی تھیں،
انہوں نے مجھے دیکھا تو جانے انہیں کیسے پتہ چلا، ممکن ہے انہوں نے وہ لسٹ دیکھی
ہو، بہرحال انہوں نے مجھے اپنے دفتر آنے کا کہا۔ میں ان کے دفتر گئی، وہ اکیلی
بیٹھی تھیں، انہوں نے اپنے پرس سے فیس کے برابر رقم نکال کر کہا، "جاؤ اپنی فیس
ادا کر کے آؤ"۔ میں نے تھوڑی جھجک کا مظاہرہ کیا تو وہ بولیں "جاؤ، پیپر
کا ٹائم گزر جائے گا، تم میری چھوٹی بہن ہو نا؟ جاؤ بیٹا شاباش"۔
میں آنکھوں میں آنسو لیے ان کے دفتر سے باہر آئی، فیس
جمع کروا کر رسید ٹیچر کو دکھائی، انہوں نے مجھے پیپر دینے دیا۔ کچھ عرصے بعد جب
میں وہ رقم مس زیبا کو واپس کرنے گئی تو انہوں نے لینے سے مکمل انکار کر دیا اور
کہا، "چھوٹی بہن سے بھلا کون پیسے لیتا ہے بیٹا، تم اپنے پاس رکھو"۔
آج بھی میں ان کے بارے میں سوچتی ہوں تو آنکھوں میں آنسو
آ جاتے ہیں۔ سچ ہے، کسی کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
کچھ لوگ بہت گہرے ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کے کئی خوبصورت رنگ ہوتے ہیں جو چھپے ہوتے
ہیں۔
1 Comments
Sweet teacher💝❤💞
ReplyDelete