
یہ آج سے 22 سال پہلے کی بات ہے، ہمارے ایک جاننے والے کے والد صاحب بیرونِ ملک روزگار کے سلسلے میں گئے تھے۔ جہاں تک میری معلومات ہیں، ان کی تعلیم بھی زیادہ نہیں تھی اور وہ وہاں کافی سخت حالات میں اپنے بچوں کی خاطر رہائش پذیر تھے۔ کافی عرصے وہاں ملازمت کرنے کے بعد ایک روز ان کی بیوی کو فون پر اطلاع دی گئی کہ آپ کے شوہر کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، ہمارا خیال ہے انہیں واپس پاکستان بھیج دیا جائے۔ مزید پوچھنے پر معلوم ہوا کہ انہیں کوئی نفسیاتی عارضہ لاحق ہوگیا ہے۔ ان کے ساتھ اچھے لوگ تھے، انہیں معلوم تھا کہ گھر والے ٹکٹ کے پیسے نہیں بھیج پائیں گے، لہٰذا انہوں نے خود اپنے طور پر پیسوں کا بندوبست کیا اور انہیں دو ساتھیوں کے ہمراہ پاکستان بھیج دیا۔ انہی دو ساتھیوں سے معلوم ہوا کہ یہ صاحب پچھلے چند سالوں سے چپ چپ اور بہت اداس رہنے لگے تھے اور پھر اچانک ان کی حالت مزید بگڑنے لگی۔ یہ بہت چڑچڑے ہوگئے اور بات بات پر بلاوجہ غصہ کرنے لگے۔ بہر حال، پاکستان میں بھی وہ گھر میں مکمل خاموش بیٹھے رہتے جیسے کسی گہری سوچ میں ہوں، گھر والے غربت کے باعث کوئی خاص علاج بھی نہیں کرا سکے۔ ایک بڑی بچی کسی لڑکیوں کے ہوسٹل میں اسسٹنٹ کا کام کرکے گھر کا خرچہ چلانے لگی۔
ایک بہت عجیب بات جو ان کے بچے بتاتے تھے، وہ یہ تھی کہ یہ صاحب گھر کی مختلف چیزیں جمع کر کے ان کو آگ لگا کر ایک کونے میں بیٹھ کر سنجیدگی سے دیکھتے رہتے۔ مجبورا بہت سی چیزوں کو الماری میں لاک کر کے رکھنا پڑتا تھا۔ ایک روز جب گھر والے پڑوسیوں کے گھر گئے ہوئے تھے، ایک بچی گھر میں تھی، اس نے دیکھا کہ والد صاحب میزکی درازوں سے دھاگے، اون، لیس اور باقی چھوٹی موٹی چیزیں جمع کر رہے ہیں، اس کے بعد انہوں نے ان سب کو کمرے کے بیچ میں رکھ کر آگ لگائی اور ایک کونے میں آرام سے انہیں جلتے ہوئے دیکھنے لگے۔ مختصراً یہ کہ ان کی حالت بگڑتی گئی، ان کے جاننے والوں نے ماہرینِ نفسیات سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کافی تفصیلات بتائیں جن میں بنیادی باتیں یہ تھیں کہ روزگار کے لیے اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر جانے والے وہاں انتہائی قابلِ رحم زندگی گزارتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں مختلف مزاج کے 7-8 لوگوں کو رہنا پڑتا ہے، خوراک بھی صحیح نہیں ہوتی، جو کماتے ہیں، وہ اپنے ملک بھیج دیتے ہیں، غیر لوگوں کے درمیان کوئی اپنا نہیں ملتا جس سے کھل کر بات کی جا سکے، ان میں سے زیادہ حساس لوگوں کو اپنے گھر والے بہت شدت سے یاد آتے ہیں، یہ تمام وجوہات انہیں ذہنی مریض بنا دیتی ہیں۔
اس کے بعد ان سے رابطہ نہ ہو سکا، خدا جانے اب 22 سال بعد وہ کس حال میں ہوں گے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ساری عمر باہر ملازمت کرنے والوں کو ویسے بھی بچے اتنے عرصے بعد قبول نہیں کرتے اور آپس کے تعلقات میں عجیب سرد مہری سی رہتی ہے۔ اس واقعے میں بہر حال بہت بڑا پیغام ہے ان افراد کے لیے، جو ملازمت کے حصول کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ اپنے ملک میں اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر کمائی کا کوئی ذریعہ بنایا جائے اور اگر جانا بہت ضروری ہو تو اکیلے جانے سے اجتناب کیا جائے۔ اپنی صحت کی قدر کریں۔ صحت سے بڑھ کر کچھ نہیں ؛ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک بیمار شخص کو گھر والے بھی مشکل سے قبول کرتے ہیں۔
1 Comments
Aisa aik waqia hamari family may bhi hua. Wo bhi depression k mareez banay😥🤲
ReplyDelete