میرا
تعلق بلوچستان کے ایک علاقے سے ہے۔ جب میں نے اپنا ماسٹرز مکمل کیا تو
خیال آیا کہ ایم فل کیا جائے۔ ہمارے علاقے میں کسی تعلیمی ادارے میں میرے
کورس میں ایم فل نہیں ہو رہا تھا، لہذا میرے لیے کسی اور شہر جانا ضروری
ہوگیا۔ گھر والوں کو منانے کے بعد اگلا مرحلہ داخلہ لینے کا تھا، مجھے
معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں (آئی آئی یو آئی میں) میرے اور دیگر کورسز کے
داخلے آچکے ہیں، میں بہت خوش ہوئی۔ داخلہ فارم جمع کروانے کا کام میں نے
بھائی کو سونپ دیا اور میں دن رات ٹیسٹ اور انٹرویو کی تیاری میں جت گئی۔
دل میں کچھ عجیب، کچھ مایوس کن خیالات بھی آ رہے تھے کہ اسلام آباد والے تو
بہت لائق ,ماڈرن اور مغرور
ہوتے ہیں، وہاں مقابلہ بھی بہت سخت ہے، ایک کلاس میں پندرہ سے زیادہ
سٹوڈنٹس کو داخلہ نہیں ملتا۔ پتہ نہیں مجھ بلوچستان کی لڑکی کو وہاں داخلہ
ملے گا یا نہیں۔ یہاں یہ بات بتاتی چلوں کہ میں اچھی طالبہ تھی، کلاس میں
اول یا دوم آتی تھی اور ایک تعلیمی ادارے میں پڑھا بھی رہی تھی۔ خیر وہ دن
آن پہنچا جب میں ٹیسٹ دینے آئی یو آئی پہنچی۔ وہاں تقریباً 150 لڑکیاں
میرے ہی کورس میں داخلہ لینے آئی تھیں اور سب آپس میں ٹیسٹ میں آنے والے
سوالات پر بحث کر رہی تھیں۔ وہاں داخلہ گیٹ پر ایک ٹیچر کھڑی تھیں جن کی
عمر کوئی 28-29 سال ہوگی، وہ سب کے کاغذات چیک کر رہی تھیں، لسٹ میں جن کے
نام دیکھتی تھیں انہیں ٹیسٹ کے لیے ہال میں جانے کی اجازت دے دیتی تھیں۔
اکثر لڑکیوں کو انہوں نے پیار سے یہ کہہ کر روک دیا کہ ان کا جی پی اے کم
ہے جس کی وجہ سے وہ ٹیسٹ کے لیے اہل نہیں ہیں۔ وہ لڑکیاں روتی ہوئی واپس
چلی گئیں۔ میرا جی پی اے کا مسئلہ نہیں تھا لہذا میں اس لحاظ سے مطمئن تھی،
لیکن مجھے اپنے ساتھ والی لڑکی کو روتے ہوئے جاتے ہوئے دیکھ کر بہت دکھ
ہوا کیونکہ وہ شروع میں کافی پرجوش دکھائی دے رہی تھی۔ جب میری باری آئی تو
انہوں نے کہا کہ بیٹا، آپ کا تو نام ہی نہیں ہے اس لسٹ میں، کیا آپ نے
داخلہ فارم جمع کروایا تھا؟ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی، میں نے کہا میرے
بھائی نے کروایا تھا۔ (مجھے بعد میں پتہ چلا کہ بھائی فارم جمع کروانا بھول
گئے تھے)۔ مجھے بہت دکھ ہوا، یوں لگا جیسے میرے ٹکٹ کے پیسے ضائع ہوگئے
اور میں بے وقوف ہوں جو آئی ہوں۔ انہوں نے میری حالت دیکھ کر میرے
دستاویزات کا جائزہ لیا اور کہا آپ تو بہت اچھی طالبہ رہی ہیں اور کافی دور
سے آئی ہیں، آپ پریشان نہ ہوں، ایک کام کرتی ہوں، آپ ٹیسٹ دے دیں، داخلہ
فارم میں آپ سے ٹیسٹ کے دوران فِل کروا لوں گی، لیکن کسی کو پتہ نہ چلے
بیٹا، ورنہ میرے لیے مسئلہ بن جائے گا۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ اتنی
پیاری ٹیچر کا شکریہ کیسے ادا کروں۔ ٹیسٹ بہت آسان تھا، انہوں نے واقعی
ٹیسٹ کے دوران آ کر فارم فِل کروایا، انویجلیٹر نے ان سے پوچھا کہ آپ کیا
کر رہی ہیں تو انہوں نے کہا، بچی کے فارم میں کچھ چیزیں مسنگ ہیں، وہ فِل
کروا رہی ہوں۔ خیر، اللہ کا شکر ہے میں پاس ہوگئی اور انٹرویو بھی بہت اچھا
ہوا۔ مجھے نہ صرف داخلہ ملا بلکہ میں اپنی کلاس میں اول بھی آئی۔ایم فل کی
وجہ سے تین سال بعد ہی مجھے اپنی ملازمت میں ترقی بھی ملی جس کی وجہ سے
میں ان ٹیچر کی اور بھی شکر گزار ہوں۔
ٹیسٹ کے بعد میں ان ٹیچر کا شکریہ ادا کرنے گئی تھی، بہت ڈھونڈا لیکن وہ
مجھے نہ مل سکیں۔ غالباً وہ کسی کلرک آفس میں ہوتی تھیں۔اس واقعے نے بلا
شبہ میری سوچ کو ایک پیارا سا نیا زاویہ دیا۔ ان کے حسنِ اخلاق اور خلوص کی
وجہ سے میرے دل میں (بچپن سے موجود) لسانیت اور قوم پرستی کی وجہ سے جو
بھی منفی, نفرت انگیز
اور مایوس کن خیالات تھے، وہ سب مکمل طور پر ختم ہوگئے۔ وہ آج بھی میری
دعاؤں کا حصہ ہیں۔ سچ کہتے ہیں، اچھے لوگ ہمیشہ کے لئے دل میں بس جاتے ہیں۔
اور ہاں، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے شیئر کرنے کو، جس کا ذکر پھر کبھی
:)
Sender: Aarzu***
0 Comments