باجی جان ، ہم تحفے کے پیسے نہیں لیتے۔

 



کچھ سال قبل ہم جس گھر میں رہتے تھے، وہاں پیچھے کچھ فاصلے پر ایک غریب آبادی تھی جہاں لوگ جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ میری عادت ہے کہ یونیورسٹی جاتے وقت میری نظر کبھی کبھار اُن بچوں میں سے کسی پر پڑتی تو میں اُن کو ٹافیاں یا بسکٹس وغیرہ دیتی تھی، جس کو لے کر وہ بہت خوش ہوتے تھے۔
ایک روز واپسی پر میری ایک دوست میرے ساتھ میرے گھر جا رہی تھی کہ اُسی کچی آبادی سے ایک بچی آئی اور مجھے بہت پیار سے سلام کیا۔ بھورے بالوں والی اُس بچی کی عمر تقریباً سات سال ہوگی، اُس کے چہرے پر بے انتہا پیاری سی معصومیت تھی۔ میرے بیگ میں ایک چاکلیٹ پڑی تھی، میں نے اُس کو پکڑائی تو اُس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ اُس نے اپنی زبان میں غالباً مجھے شکریہ کہا اور پھر اپنے گھر کی طرف بھاگ گئی۔
میری دوست نے یہ منظر دیکھ کر پوچھا: "کیا تم روز ان بچوں کو کچھ دیتی ہو؟
میں نے کہا: "روز تو نہیں، لیکن اکثر کچھ نہ کچھ دیتی ہوں۔
یہ سُن کر وہ بولی: تمہیں نئی نئی نوکری ملی ہے، تمہیں چاہیے کہ اپنے مستقبل کے لیے کچھ بچا کر رکھو، ان بچوں کو دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔
وہ کیوں؟ میں نے پوچھا تو اُس نے جواب دیا
دراصل پہلی بات تو یہ ہے کہ اس عمر میں مفت چیزیں دینے سے بچوں کی عادتیں خراب ہو جاتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بدقسمتی سے پچھلی تقریباً تین دہائیوں سے یہ لوگ اسی طرح غربت میں رہ رہے ہیں۔ تم تو جانتی ہو کہ مفلسی بہت سی اخلاقی برائیوں کی جڑ ہے، لہٰذا ان میں تمہیں کثرت سے چور، ڈاکو، جیب کترے وغیرہ ملیں گے۔ ان کی کوئی اخلاقی تربیت نہیں ہوتی، حد درجہ چالاک، دھوکہ باز اور حریص ہوتے ہیں۔ انہیں صرف دوسروں سے لینا سکھایا جاتا ہے، کسی کو کچھ دینا ان کی سرشت میں نہیں ہوتا۔
اُس نے مزید کہا
میں بھی پہلے تم جیسی بیوقوف تھی، انہیں جوتے لے کر دیتی تھی، پھر دوسرے دن بغیر چپل کے پھر رہے ہوتے تاکہ لوگ ترس کھا کر بھیک دیں۔ میری مانو تو ان سے دُور ہی رہو تم۔
نہ جانے کیوں، مجھ پر اپنی دوست کی باتوں کا بہت اثر ہوا، میں نے سوچا کہ اُس کا تجربہ مجھ سے زیادہ ہے، بس میں آئندہ ان کو کچھ نہیں دوں گی۔ یہی پیسے بچا کر اپنے لیے کچھ لے لوں گی لیکن ان کو کچھ نہیں دوں گی۔
اگلے روز جب میں اکیلی اپنے گھر کی جانب آ رہی تھی تو دُور کونے میں وہی معصوم سی بچی اپنی ایک اور چھوٹی بہن کے ساتھ کھڑی تھی۔ میں نے اُن دونوں کو دیکھ کر نظر اندازکر دیا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ آج پھر یقیناً کچھ لینے کی نیت سے آ رہی ہوگی، اپنے ساتھ چھوٹی بہن کو بھی لائی ہے تاکہ زیادہ چیزیں ملیں۔ میں نے پکا ارادہ کر رکھا تھا کہ کیونکہ میں نے خود ان کی عادتیں خراب کی ہیں لہٰذا آج انہیں کچھ نہیں دوں گی۔ دوسری طرف یہ خیال بھی آ رہا تھا کہ بچے ہی تو ہیں، کہیں میری سوچ غلط تو نہیں۔
الغرض، اسی شش و پنج میں میں تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی جانب بڑھ رہی تھی کہ اچانک وہ دونوں میرے سامنے آ گئیں۔ وہ بہت پُرجوش دکھائی دے رہی تھیں جیسے کافی دیر سے میرے انتظار میں ہوں۔
اُس بچی نے اُسی طرح پیارے سے انداز میں سلام کیا، میں نے مصنوعی مسکراہٹ سجا کر جواب دیا۔ ابھی میں کہنے ہی والی تھی کہ "میرے پاس آج کچھ نہیں ہے تم لوگوں کو دینے کے لیے" کہ اچانک اُس بچی نے اپنا ہاتھ میری جانب بڑھایا۔ اُس میں دو انتہائی خوبصورت چوڑے ہار تھے۔
اُس نے کہا
"یہ آپ کے لیے تحفہ ہے، میری امی بناتی ہیں یہ، اُن کی طرف سے آپ کے لیے تحفہ بنوایا ہے میں نے۔"
مجھے ایک لمحے کو یوں لگا جیسے میرے سارے الفاظ ختم ہو گئے ہوں۔
بہرحال میں نے کہا
"یہ ہار تو اچھی قیمت پر فروخت ہوتے ہیں بازار میں، میں آپ کو اس کی قیمت ادا کرتی ہوں۔"
یہ کہہ کر میں نے پیسے نکالنے کے لیے اپنے پرس کی جانب ہاتھ بڑھایا تو اُس نے اپنے چھوٹے سے ہاتھ سے میرا ہاتھ روک لیا اور معصومانہ حیرت سے کہنے لگی
"باجی جان، یہ تحفہ ہے اور تحفے کے پیسے نہیں لیتے ہم۔۔۔"
اُس وقت میرا سارا فلسفہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اور آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ تھے۔۔۔

(Sender: Haw***)

 

Post a Comment

0 Comments