میں بچپن میں جس سکول میں پڑھتی تھی، وہاں ایک ٹیچر تھیں جن کا نام مس شین تھا، وہ بہت سیدھی سادی سی، درمیانی عمر کی خاتون تھیں۔ ان کا ایک چھوٹا سا بیٹا بھی تھا جو کبھی کبھار ان کے ساتھ آتا تھا۔ سکول کی پرنسپل بہت سخت مزاج، اصول و ضوابط کا خیال رکھنے والی خاتون تھیں۔ سارے ٹیچرز اور بچوں پر ان کا کافی رعب تھا، پرنسپل صاحبہ کی ایک بیٹی مینا بھی تھی جو پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی، وہ نہایت پیاری اور اسٹائلش سی بچی تھی۔ پڑھائی میں بھی بہت لائق تھی۔
خیر، دوبارہ آتے ہیں مس شین کی طرف۔ ایک مرتبہ ہمیں اچانک پتہ چلا کہ مس شین کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ کیونکہ ہماری کلاس کے بچے ان کے کافی عادی ہو چکے تھے تو ہمیں شدید دکھ ہوا۔ میں کسی کام سے اسٹاف روم گئی تو دیکھا کہ مس شین رو رہی تھیں، اور ان کی ساتھی ٹیچرز ان کو چپ کروا رہی تھیں۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد انہوں نے اپنا پرس اٹھایا اور سکول کے گیٹ سے باہر نکل گئیں۔ میں بہت پریشان ہوئی، بعد میں سینئر کلاس کی ایک لڑکی سے پتہ چلا کہ مس شین کو ان کے سسرال والوں نے کوئی فضول الزام لگا کر طلاق دلوا دی تھی۔ مس شین کا کہنا تھا کہ الزام محض ان کو بدنام کرنے کی خاطر لگایا گیا ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ بہرحال، یہ بات اڑتے اڑتے کسی طرح پرنسپل میڈم تک پہنچ گئی تھی جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ چونکہ مس شین کی شہرت اچھی نہیں، لہٰذا وہ اب اس سکول میں مزید کام نہیں کر سکتیں۔ مس شین نے بہت فریاد کی اور بتایا کہ ان کے سسرال والے شروع سے ان کی شادی سے خوش نہیں تھے اور یہ الزامات جھوٹے تھے لیکن میڈم نے ایک نہ سنی اور پھر ہمیں ایک نئی ٹیچر پڑھانے لگیں۔ کچھ عرصے بعد ہی مس شین کو اللہ کے فضل سے سرکاری نوکری مل گئی تھی، اور ان کی زندگی اچھی گزرنے لگی تھی۔ بچپن کا دور تھا، ہم کچھ ہی عرصے بعد یہ بات بھول بھال گئے۔ کئی سال بعد ایک مرتبہ ان سے مارکیٹ میں ملاقات ہوئی، وہ کافی پرسکون نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سکول کے بچے بہت یاد آتے ہیں، شروع شروع میں جب مجھے نکالا گیا تو میں اپنی قسمت پر بہت روئی، بعد میں جب مجھے اچھی نوکری مل گئی تو یہ مصلحت سمجھ آئی، ورنہ میں خود کبھی سکول کی نوکری نہ چھوڑ پاتی۔ بہرحال، اس واقعے کا ایک نہایت دردناک پہلو یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک آنٹی سے ملاقات ہوئی جو ان پرنسپل میڈم کی جاننے والی تھیں، انہوں نے بتایا کہ پرنسپل میڈم نے بہت خرچہ کر کے اپنی پیاری بیٹی مینا کی شادی کی، لیکن بیچاری کو کچھ ہی مہینے بعد طلاق ہوگئی، صرف یہی نہیں، اس کے سسرال والوں نے اس کے سارے سامان پر بھی مکمل قبضہ کر لیا اور اس کو جھوٹے الزامات لگا کر کھڑے کھڑے نکال دیا۔
یہ سن کر جانے کیوں میری نظر کے سامنے کئی سال پہلے کا منظر آ گیا جس میں مس شین اپنی چادر سے آنسو پونچھ رہی تھیں اور اپنا پرس اٹھا کر روتے ہوئے سکول کے گیٹ کی طرف جا رہی تھیں۔
(Sender: Naz***)
1 Comments
Allah bachain makafat e amal say. Ameen
ReplyDelete