میں کراچی میں لڑکوں کے ایک کالج میں اُستاد ہوں۔ ایک روز میں بس کے انتظار میں بس اسٹاپ پر کھڑا تھا کہ میری نظر ایک پٹھان چائے بیچنے والے نوجوان پر پڑی۔ اُس نے چمکتے ہوئے شیشوں والی سندھی ٹوپی پہن رکھی تھی جو اُس پر بہت جچ رہی تھی۔ ساتھ ہی اُس کے پاس ایک چائے والا چینک اور چار کپ تھے۔ وہ اردگرد سے بےخبر، کافی دلجمعی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف تھا۔ ہر بس میں نہایت تیزی سے چڑھ کر مسافروں کو چائے کی پیشکش کرتا اور ساتھ ساتھ آواز لگاتا جاتا: "کوئٹہ ہوٹل کی چائے لے لو صاحب!"۔
مجھے ایک لمحے کو اُس پر ترس آیا کہ میرے بیٹے کی عمر کا لڑکا ہے اور پڑھائی چھوڑ کر اس کام میں لگا ہوا ہے۔ یقیناً کوئی مجبوری ہوگی، گھر کا خرچ چلاتا ہوگا۔ میں اسی سوچ میں گم تھا کہ میری بس آگئی اور میں کالج کے لیے روانہ ہو گیا۔
میرا معمول تھا کہ روز بس اسٹاپ پر رنگ رنگ کے لوگوں پر غور کرتا، آنے جانے والے چہروں میں چھپی زندگیوں کو محسوس کرتا، کسی کی آنکھوں میں امید، کسی کے چہرے پر مایوسی، اور کچھ چہروں پر دنیا سے بے نیازی جھلکتی۔
کچھ کی زندگی قابلِ رشک لگتی اور کچھ کی حالت پر رحم آتا۔ زیادہ تر لوگ میری طرح متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ بہرحال، روزانہ اتنے لوگوں پر غور کرکے آخر میں پاک رب کا شکر ادا کرتا کہ ہماری حالت کافی لوگوں سے بہتر ہے۔
خیر، وہ چائے والا نوجوان میری خصوصی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ وہ کھڑی ہوئی بسوں کی تلاش میں رہتا تھا اور اکثر جلدی میں ہوتا تھا، لہٰذا کبھی اس سے بات نہ ہو سکی۔ ایک روز دیکھا تو اُس کے پاس چائے کے ساتھ ساتھ ایک برتن میں اُبلے ہوئے انڈے بھی تھے۔ پھر کچھ ماہ بعد دیکھا تو اُس نے ایک ٹھیلہ لگا لیا تھا جس پر پراٹھے، انڈے اور چائے بیچنے لگا۔
مجھے اُسے ترقی کرتے دیکھ کر عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔
کچھ عرصے بعد ہمارے کالج کو ایک اور عمارت میں منتقل کر دیا گیا، جس کی وجہ سے وہ بس اسٹاپ بھی بدل گیا۔ ہمیں ایک کالج وین فراہم کی گئی جس پر میں گھر سے کالج اور کالج سے گھر بہ آسانی آتا جاتا۔ لیکن یقین مانیے، میں بھی عجیب آدمی ہوں، مجھے وہ دھوپ میں کھڑے ہو کر بس کا انتظار کرنا اور مختلف قسم کے لوگوں کی زندگی کا جائزہ لینا یاد آتا تھا۔
ایک روز مجھے ایک ضروری کام سے شہر کے مرکز جانا پڑا۔ اپنے کام نمٹا کر جب میں واپس جانے لگا تو میری نظر ایک چھوٹے سے چائے کے ہوٹل پر پڑی جس پر لکھا تھا "نیو کوئٹہ ہوٹل"۔ میں چائے پینے اندر چلا گیا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ اندر مالک کی جگہ وہی نوجوان بیٹھا تھا اور باقی لڑکے نہایت مستعدی سے کاموں میں مصروف تھے۔
ہوٹل میں لوگوں کا مناسب رش نظر آیا۔ مینو میں ناشتہ کے تقریباً تمام لوازمات موجود تھے۔ ہوٹل صاف ستھرا اور کافی نفاست سے سجا ہوا تھا۔ آج کافی عرصے بعد اُس نوجوان سے بات کا موقع ملا۔ وہ نہایت ملنسار اور احترام کرنے والا تھا۔ میں نے اُسے بتایا کہ کیسے اُس کی ترقی کا سفر میرے سامنے طے ہوا اور میں خاموشی سے اُس کی محنت کا دل ہی دل میں قدردان بن چکا تھا۔
یہ سن کر وہ نہایت خوش ہوا اور کہا، _جی، میں نے بھی آپ کو دیکھتے ہی پہچان لیا تھا، آپ یقیناً میرے والد کی طرح ہیں۔ میرے لیے بہت عزت کی بات ہے کہ آپ میرے ہوٹل آئے۔
بہرحال، ناشتہ لذیذتھا_ باوجود تمام تر کوششوں کے اُس نے مجھ سے ناشتے کے پیسے وصول نہ کیے۔
اس واقعے کے ذریعے میں اُن سب نوجوانوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں جو اپنی زندگی کی دوڑ میں کبھی پیچھے رہ جاتے ہیں، اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ہمت کریں، محنت میں ہی عظمت ہے، محنت میں ہی عزت ہے۔
(Sender: Ata***)
1 Comments
Bohot khoobsoorat waqia hay. Pathan log wesay bhi bohot mehnati hotay hain👍
ReplyDelete