بی بی جی

 

یہ کافی سال پرانی بات ہے۔ میں نوکری کے سلسلے میں اپنے علاقے سے کافی دور، اپنے دو بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ دونوں بھائی صبح اپنے دفتر جاتے اور پھر شام کو واپس آتے تھے۔ میری چھٹی کیونکہ دو بجے ہو جاتی تھی تو میں دوپہر کو ہی گھر پہنچ جاتی تھی۔ ہم اس علاقے میں زیادہ لوگوں کو نہیں جانتے تھے، پڑوسیوں سے بھی تعلقات اُس وقت تک قائم نہیں ہوئے تھے۔ لہٰذا میں بھی کسی کو نہیں جانتی تھی۔ اُس دوران میرے معمولات کچھ یوں تھے کہ میں گھر پہنچ کر گھر کی صفائی وغیرہ کرتی، اپنی نوکری کے کام کرتی رہتی اور پھر شام کو بھائیوں کے آنے سے پہلے رات کا کھانا تیار کرتی تھی۔ کیونکہ دوپہرکو میں اکیلی گھر پر ہوتی تھی، لہٰذا اپنے لیے کھانے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کرتی تھی، کبھی ڈبل روٹی چائے کے ساتھ کھا لیتی، کبھی اگر رات کا کھانا بچا ہوتا تو وہی گرم کر لیتی اور پھر اپنے کام میں لگ جاتی۔

ایک روز جب میں اسی طرح گھر کی صفائی میں مشغول تھی تو دروازے پر دستک ہوئی، جب میں نے کھولا تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک ضعیف، پُر وقار خاتون، اپنے ہاتھوں میں ایک ڈش پکڑے کھڑی ہیں، جس میں کچھ برتن موجود ہیں، جنہیں نہایت سلیقے سے ڈھک کر رکھا ہوا ہے۔ خاتون کچھ یوں گویا ہوئیں: "میں آپ کی پڑوسن ہوں بیٹا، آپ کے ساتھ والا گھر میرا ہے، یہاں مجھے سب 'بی بی جی' کہہ کر پکارتے ہیں۔ دراصل مجھے پتہ چلا کہ اس گھر میں تین بہن بھائی رہتے ہیں، اپنے ماں باپ کے بغیر، تو میں نے سوچا کہ آپ لوگوں کی خیر خیریت معلوم کروں اور میں نے میٹھا بنایا تھا، سوچا وہ بھی آپ کو کھلاوں۔" خاتون کے لہجے میں بے پناہ محبت اور اپنائیت تھی۔ خیر، میں نے انہیں احترام سے اندر بلایا۔ ہلکی پھلکی بات چیت شروع ہوئی، جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ بی بی جی نہایت صاف دل، محبت کرنے والی، معصوم سی خاتون تھیں۔ اس کے بعد وہ کبھی کبھار مجھ سے ملنے آ جاتی تھیں۔

اس تمام واقعے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بی بی جی روزانہ باقاعدگی سے دوپہر کے وقت ایک پلیٹ سالن اور دو روٹیاں میرے لیے بھیجتی تھیں۔ میں نے کئی بار منع کیا کہ میں کھانے کا اتنا اہتمام نہیں کرتی، دوپہر کو میرا گزارہ ہو جاتا ہے، ویسے بھی رات کو اہتمام سے بھائیوں کے لیے کھانا تیار کرتی ہوں جو اکثر دوسرے دن کام آ جاتا ہے، لیکن انہوں نے میری کبھی نہ سنی۔ وہ کہتی تھیں: تم ایک بندی کیا پکاتی پھرو گی اپنے لیے، اس لیے میں تمہارے حصے کا کھانا روزانہ پکا کر رکھتی ہوں کہ تم کچھ تازہ کھا لیا کرو۔

الغرض، ان کا یہ معمول جاری رہا، حتیٰ کہ ہم نے اپنا گھر خرید لیا اور دوسرے علاقے میں منتقل ہوگئے۔ بی بی جی ایک پرانے دور کی خاتون تھیں، زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں، لیکن محبت اور ملنساری ان کے خمیر میں گویا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک ان سے رابطہ رہا، پھر ایک روز خبر آئی کہ وہ خالقِ حقیقی سے جا ملی ہیں۔ ان کا خیال آتے ہی آج بھی میرا دل محبت اور احترام سے بھر جاتا ہے اور آنکھوں میں بے اختیار آنسو آجاتے ہیں۔ دل کو ایک عجیب سا یقین ہوتا ہے کہ ان کی روح بہت پرسکون اور خوبصورت مقام پر ہے۔

آج کل کی نسل کو لیپ ٹاپ اور موبائل سے فرصت ہی نہیں، ہر جگہ ٹیکنالوجی کا راج ہے۔ ہمیں اپنے گھر والوں کا پتہ نہیں، پڑوسیوں کی خاک خبر ہوگی؟ ایسے میں میں اکثر سوچتی ہوں کہ ہماری یہ موجودہ نسل جب بڑھاپے تک پہنچے گی تو کیا ہم میں بھی بی بی جی جیسے لوگ ہوں گے؟ مجھے تو نہیں لگتا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

 
(Sender: Haya***)

Post a Comment

1 Comments

  1. Aj kal k bachon ko to apnay maa baap k sath baithnay ka bhi na time hay na shoq😢 yay waqai talkh haqeeqat hay janab

    ReplyDelete