ایک افسوسناک واقعہ





 
  

یہ سچا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور ہمارے معاشرے کی جہالت اور بے حسی کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے ایک دوست ڈاکٹر شمس (سرجن) ہیں اور پچھلے کئی سال سے نہایت ایمانداری سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایک مرتبہ، کوئی 22 سال پہلے، ان سے ایک پرائیویٹ ہسپتال والوں نے رابطہ کیا، انہیں ایک سرجن کی ضرورت تھی۔ تنخواہ بھی اچھی دے رہے تھے۔ ڈاکٹر شمس نے حامی بھر لی۔ جا کر دیکھا تو وہ ایک تین منزلہ ہسپتال تھا اور معلوم ایسا ہوتا تھا کہ کافی پیسہ لگا کر بنایا گیا ہے۔ (ڈاکٹر صاحب ایک دیندار آدمی ہیں اور حرام حلال کے معاملات کے بارے میں کافی حساس ہیں۔ کئی غریبوں کا علاج اپنی جیب سے کر چکے ہیں) ۔ بہرحال، وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اس ہسپتال میں میرے پاس ایک نوجوان مریض آیا جس کی عمر تقریباً 21 سال ہوگی، وہ اپنے والد کے ساتھ آیا تھا جو کافی ضعیف تھے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ نوجوان ہاتھ کے ایک زخم کی وجہ سے کافی تکلیف میں تھا۔ ہسپتال والوں کا کہنا تھا کہ اس کو سرجری کی فوری ضرورت ہے جس کے لیے آپ کی خدمات درکار ہیں۔ اس کے والد صاحب رقم کا بندوبست بھی کر چکے تھے اور نہایت پریشانی سے کہنے لگے، "میں کافی مشکل سے رقم کا بند وبست کر چکا ہوں، بس میرے بیٹے کی تکلیف دور ہو جائے"۔

میں نے اس کے ہاتھ کا تفصیلی جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس کو سرجری کی ضرورت نہیں تھی، میں نے اسے ایک (مَرہَمَ) / کریم لکھ کر دی اور ایک ماہ تک استعمال کرنے کا کہا۔ ایک ماہ بعد وہ اور اس کے والد مٹھائی لے کر آئے، نوجوان کا ہاتھ اللہ کے فضل سے بالکل ٹھیک تھا اور اس کے والد بہت خوش تھے اور مجھے مسلسل دعائیں دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شکر ہے میرے بیٹے کا ہاتھ کا ٹنا نہیں پڑا، یہ بہت حساس بچہ ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اتنا پریشان ہو جاتا ہے، ساری عمر معذوری سے کیسے لڑتا۔ بہرحال وہ والد اور بیٹا چلے گئے۔

تھوڑی دیر بعد مجھے ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر نے بلایا، وہ کافی غصے میں تھا، میں نے وجہ دریافت کی تو کہا کہ مجھے آپ کی شکایت ملی ہے، میں نے پوچھا کیا شکایت تو انہوں نے کہا_جس نوجوان کو ہاتھ کی سرجری کے لیے آپ کے پاس بھیجا تھا، آپ نے اس کی سرجری کیوں نہیں کی؟

میں ان کا سوال سن کر بہت حیران ہوا، میں نے سوچا کہ چونکہ ایڈمنسٹریٹر صاحب کا میڈیکل سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، لہٰذا انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نے کہا _جناب اس نوجوان کو سرجری کی ضرورت نہیں تھی، یہ فیصلہ میں نے اپنے 25 سال کے تجربے کو سامنے رکھ کر کیا، میں کیوں بلاوجہ اس کا ہاتھ کاٹ دیتا جب کہ وہ 500 روپے کی کریم سے ٹھیک ہو سکتا تھا، آج وہ بالکل ٹھیک ہے، ابھی ابھی اس کے والد اور وہ مجھ سے مل کر گئے ہیں، آپ کہیں تو ان کو بلا لوں؟

یہ سن کر وہ فرعونیت اور حقارت سے بولا _جی جی، مجھے سب معلوم ہے، آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ تین منزلہ ہسپتال ہم نے مریضوں کو 500 کی کریم کے مشورے دے دے کر بنایا ہے؟ سرجری کی صورت میں وہ اچھی خاصی رقم کی ادائیگی کرتا، آپ نے کیوں یہ موقع جانے دیا، آپ اکیلے سرجن نہیں ہیں، معذرت کے ساتھ، اگر آپ ہماری پالیسیوں کو فالو نہیں کر سکتے تو صاف بتا دیں تاکہ ہم کسی اور سرجن کا بندوبست کر یں_

میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا اور میں نے اسی وقت یہ ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

میرا خیال تھا کہ مکمل ثبوت حاصل کرنے کے بعد میں ان پر مقدمہ دائر کروں گا، لیکن شاید انہیں اندازہ ہوگیا تھا، ان کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا تھا اور وہ راتوں رات اس تین منزلہ عمارت کا سودا کر کے کہیں غائب ہوگئے۔ خدا جانے کہاں گئے لیکن پھر وہاں نہ کبھی ان میں سے کوئی نظر آیا اور نہ ہی وہ ہسپتال دوبارہ بنا، آج بھی میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو میری روح کانپ جاتی ہے۔


Post a Comment

0 Comments