زبان کے زخم



کئی مرتبہ کسی کی ایک بات، ایک جملہ انسان کی پوری زندگی تباہ کر سکتا ہے۔ اس کا اندازہ مجھےکئی بار ہوا۔ آٔس نگر کی بیٹھک میں اسی ضمن میں کچھ واقعات پیشِ خدمت ہیں۔

 کچھ سال پہلے میں ایک چھوٹے سے اسکول میں جاب کرتی تھی۔ ایک مرتبہ واپسی پہ جب ہم بس میں تھے، تو میرے ساتھ بیٹھی ٹیچر نے کھڑکی سے باہر ایک پھل بیچنے والے کی طرف دیکھا اور حیرت سے کہا "ارے یہ تو خان بخت ہے"۔  "خان بخت؟ کون خان بخت؟" میں نے پوچھا تو وہ بہت اداسی سے بولی۔ "یہ کچھ سال پہلے ہمارا کلاس فیلو ہوتا تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ شکر ہے اُس نے مجھے نہیں دیکھا ورنہ شرمندہ ہو جاتا بیچارا"۔ میرے پوچھنے پہ اُس نے بتایا کہ "خان بخت بہت غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ اس نے اسکول اچانک چھوڑ دیا تھا کیونکہ ہماری ایک اُستانی بار بار اسے کہتی تھیں کہ نیا یونیفارم خریدو۔ اُس نے کئی مرتبہ کہا کہ میں جلد ہی لے لوں گا جب ابو کے پاس پیسے جمع ہوں گے لیکن انہوں نے اسے کلاس میں بیٹھنے سے ہی منع کر دیا اور کہا کہ یہ ان کے بہانے ہوتے ہیں سب۔" بہرحال، بخت نے اسکول ہی چھوڑ دیا۔اور آج میں نے اسے اس حال میں دیکھا ,  میں بہت دکھی ہوئی"۔

دوسرا واقعہ مجھے میری ایک جاننے والی نے سنایا۔ ایک مرتبہ میں ان کے گھر گئی تو دیکھا کہ ایک ادھیڑ عمر شخص پلنگ پر بیٹھا ہے، اس کا لباس پرانا سا تھا اور بال اُلجھے ہوئے تھے۔ وہ اپنے آپ سے مسلسل باتیں کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ "یہ کون ہیں" تو وہ بولی، "یہ ہمارے دور کے چچا ہیں، کئی سالوں سے نفسیاتی مریض ہیں۔" بعد میں اس نے مزید بتایا کہ یہ اپنے لڑکپن میں بالکل نارمل تھے، لیکن بہت کم گو اور حساس طبیعت کے مالک تھے۔ گاؤں میں رہتے تھے، ایک روز ان کے کچھ دوست ان کے گھر آئے۔ انہوں نے کھانے پر روک لیا۔ اتفاق سے گھر میں کچھ اور موجود نہیں تھا پکانے کو، تو ان کی والدہ نے انڈے پکا کر دے دیے۔ دوست کھانا کھا کر چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد انہی دوستوں میں سے کچھ دوبارہ ان کے گھر کے پاس سے گزر رہے تھے۔ انہوں نےازراہ مروّت کہا، "آؤ کھانا میرے ساتھ کھا کے جانا"، تو ان میں سے ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا، "کیوں، پھر انڈے کھلانے کا ارادہ ہے کیا؟" یہ سن کرباقی سارے دوست زور زور سے  ہنسنے لگے۔ یہ پہلے ہی بہت حساس طبیعت کے تھے، ان پر اس بات کا بہت گہرا اثر ہوا۔ انہوں نے لوگوں سے ملنا جلنا کم کر دیا اور آہستہ آہستہ صرف اپنے کمرے تک محدود ہوگئے۔ رفتہ رفتہ یہ ڈپریشن کے مریض بن گئے اور آج ان کی یہ حالت ہے۔ کئی ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ ان سچے واقعات کو سن کر احساس ہوتا ہے کہ زبان کبھی کبھار کتنی ظالم چیز ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کے زخم کبھی نہیں بھر تے۔ اسی لیے ہر مذہب میں اس کا استعمال احتیاط سے کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ کاش ہم یہ بات سمجھ سکیں اور اس پر عمل بھی کر سکیں۔

(Sender: Ya***)

 

Post a Comment

1 Comments