وہ انگریز کوئی فرشتہ تھا۔

اِن واقعات میں احتیاط کی خاطر معمولی ترمیم کی گئی ہے، جیسے کرداروں کے نام، جنس، سیاق و سباق وغیرہ، تاہم بنیادی موضوع برقرار رکھا گیا ہے۔

یہ واقعہ مجھے ہمارے چوکیدار زرک خان نے سنایا تھا۔ وہ بے چارا پڑھا لکھا نہیں تھا، جب ہوش سنبھالا تو والدین کا سہارا بھی چھن گیا، اور اسے اپنے چھوٹے بھائی اور اپنے خرچے کو چلانے کے لئے کم عمری میں ہی بہت سی نوکریاں کرنی پڑیں۔ لیکن اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو کوئی کام کرنے نہیں دیا اور اُسے ایک اچھے مدرسے میں داخل کروادیا تاکہ وہ ایک اچھا عالم بن سکے۔

زرک کا کہنا تھا ...میں نے کئی سال تک مزدوری کا کام کیا۔ ایک دن ایک مقامی فیکٹری میں مزدوری کرتے ہوئے میں کسی آلے سے زخمی ہوگیا۔ اس چوٹ سے میرے پیٹ کے دائیں جانب چوٹ آئی۔ میں نے زخم کی زیادہ پرواہ نہیں کی، تھوڑی بہت مرہم پٹی کی اور پھر دوبارہ کام پر لگ گیا۔ لیکن وہ زخم مجھے مسلسل تکلیف دیتا رہا جس کی وجہ سے میں کچھ ہی دنوں میں خود کو بہت نڈھال محسوس کرنے لگا۔ مزدوری بھی ٹھیک سے نہیں ہو پاتی تھی۔ تھوڑی دیر کام کر کے کچھ وقت تک تکلیف کی وجہ سے زمین پر لیٹ جاتا۔ باقی مزدور حساس اور اچھے لوگ تھے، وہ مجھے کچھ نہ کہتے، آرام کرنے دیتے، کوشش کرتے کہ میں بھاری چیز نہ اُٹھاؤں، اور میرے حصے کا کام بھی وہ خود کرنے کی کوشش کرتے۔

ایک بار کچھ لوگوں کا ایک وفد فیکٹری کا وزٹ کرنے آیا۔ مزدور کام کر رہے تھے، میں کام کرنے کے بعد کچھ وقفے کے لیے پیچھے کی طرف جا کر لیٹ گیا تھا کیونکہ درد آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ اُس وفد میں ایک انگریز بھی تھا، وہ وفد سے الگ ہو کر تعمیر کے کام کا جائزہ لینے پیچھے کی طرف آیا تو دیکھا کہ میں اپنی چادر بچھا کر زمین پر لیٹا ہوا ہوں۔ اُسے دیکھ کر میں فوراً کھڑا ہوگیا اور سلام کیا۔ اُس نے پوچھا "کیا تم ٹھیک ہو؟" میں نے کہا "جی ہاں، میں ٹھیک ہوں۔" اُس نے پوچھا "تم لیٹے ہوئے کیوں تھے اور اپنے پیٹ پر ہاتھ کیوں رکھا تھا؟ کیا کوئی تکلیف ہے تمہیں؟" اتنے میں میرا ایک ساتھی مزدور آ گیا، اُسے تھوڑی بہت انگریزی آتی تھی، باقی کی کہانی اُس نے سنائی کہ کس طرح میں زخمی ہوگیا تھا اور اب بھی کام کرنے میں تھکاوٹ اور تکلیف محسوس کرتا ہوں۔ یہ سن کر وہ انگریز بولا "تم نے اپنے زخم کو نظرانداز کرکے بہت بے وقوفی کا ثبوت دیا ہے؛ یہ زخم اگر کسی خطرناک بیماری کا سبب بن گیا تو کیا کرو گے؟" یہ کہہ کر وہ بولا "ابھی اسی وقت میرے ساتھ ہسپتال چلو۔"

 وہ مجھے ہسپتال لے گیا، ڈاکٹروں سے کہا کہ اسے اس وقت تک ڈسچارج نہ کیا جائے جب تک یہ مکمل صحت یاب نہ ہوجائے۔ اس دوران وہ مسلسل مجھ سے ملنے آتا رہا، میرے لیے پھل اور ادویات لاتا رہا۔ میرے ہسپتال کا سارا خرچہ اُس نے اٹھایا۔ اس دوران میرے بھائی کا بھی مکمل خیال رکھا، مجھے انگریزی نہیں آتی تھی اور اُسے اردو نہیں آتی تھی، مشکل سے بات چیت ہوتی۔ عجیب بے لوث آدمی تھا، میرے ڈسچارج ہونے کے بعد کبھی نظر نہیں آیا، میں اُس کا صحیح طریقے سے شکریہ بھی ادا نہیں کر سکا۔

 کچھ ہی عرصے میں میں اللہ کے فضل سے بالکل ٹھیک ہوگیا۔ وہ انسان نہیں، فرشتہ تھا جو آج بھی میری ہر دعا میں شامل ہے۔

 

 

Post a Comment

1 Comments

  1. Beautiful😥😥😥❤❤❤💘💘💘

    ReplyDelete