بابا جی کی شخصیت



پچھلے روز میرے ایک دوست نے آس نگر میگزین کا ذکر کیا، اس میں لوگوں کے سچے واقعات پڑھ کر بہت مزہ آیا۔ پڑھتے پڑھتے خیال آیا کہ  میں بھی کچھ بھیجوں۔ 2002 کی بات ہے، میں تعلیم کے سلسلے میں ہوسٹل میں رہائش پذیر تھا۔ اُس وقت میری عمر 19 سال ہوگی۔ میں چونکہ پہلی مرتبہ ہوسٹل میں رہ رہا تھا لہٰذا مجھے اس کے ماحول سے مانوس ہونے میں کافی وقت لگا۔ اُس وقت لوگ موبائل کے عادی نہیں ہوئے تھے، شام کے وقت ہم سب دوست ایک قریبی باغ میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے۔ اُس وقت سب سے بڑا مسئلہ کھانے کا تھا۔ میرے ساتھ ایک عجیب مسئلہ یہ تھا کہ انڈا کھانے سے میرا جی متلا تا تھا جس کی وجہ سے میں وہ نہیں کھا سکتا تھا۔ ہوسٹل میں جمعرات کو آلو انڈے کا سالن بنتا تھا جب کہ بدھ کو پکوڑا کڑی بنتی تھی۔ فوڈ پانڈا کا دور تو تھا نہیں کہ آن لائن آرڈر کر لیتے۔ ہوسٹل میں 3 باورچی تھے، جن میں سے ایک ضعیف سے بابا جی تھے جن کا کام کھانا تقسیم کرنا تھا، باقی دو باورچی کھانا پکانے کا کام کرتے تھے۔ میں نے ایک دو ہفتے آلو انڈے کا نام سن کر بابا جی کو کہا کہ اگر کل کی پکوڑا کڑی فرج میں ہو تو وہ دے دیں، میں وہ کھا لوں گا، میں نے محسوس کیا کہ بابا جی نے بہت راز داری سے مجھےکڑی پکوڑے کا سالن دیا اور کہا کہ جلدی سے کمرے میں لے جاؤ۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ہوسٹل ایڈمنسٹریٹر جو ایک سخت گیر انسان تھے، ان کی جانب سے مینو کی خلاف ورزی کرنا سختی سے منع کیا گیا تھا۔ 

بہرحال، بابا جی ایک انتہائی معصوم اور شفیق انسان تھے، میں نے سنا تھا کہ ایک  دو مرتبہ مالی پریشانیوں کی وجہ سے بابا جی نے یہ نوکری چھوڑ دی تھی، لیکن پھر ان کو دوبارہ آنا پڑا کیونکہ ان کی عمر کی وجہ سےان کو کہیں اور نوکری نہیں ملی۔ وقت گزرتا رہا اور بابا جی اپنی نوکری کو خطرے میں ڈال کر ہر طالب علم کو اس کی مرضی کا کھانا دینے کی پوری کوشش کرتے رہے۔ جب پلیٹوں میں کھانا بچ جاتا تو وہ بہت محبت سے وہ کھانا  بلیوں کو ڈال دیتے تھے، اوراس دوران وہ ان سے بہت محبت سے باتیں بھی کرتے۔ (یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اُس وقت مجھے بالکل نہیں معلوم تھا کہ مینو کی خلاف ورزی کرنا سختی سے منع ہے اور ہم اپنی فرمائشوں سے بابا جی کے لیے مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں۔)اور بابا جی کی بھی عجیب اعلیٰ ظرفی تھی کہ انہوں نے کبھی احساس بھی نہیں ہونے دیا۔

 ایک روز جب بابا جی پچھلے دروازے سے پکوڑا کڑی کی دیگچی لانے والے تھے اور میں کھڑا انتظار کر رہا تھا، اسی دوران ایڈمنسٹریٹر صاحب آ گئے۔ اب منظر کچھ یوں تھا کہ بابا جی دیگچی اُٹھا کر آ رہے تھے، باقی دو باورچی ان کو طنزیہ انداز میں دیکھ رہے تھے، جبکہ ایڈمنسٹریٹر صاحب نے خوب غصہ کیا۔ مجھے بہت شرمندگی ہوئی، بابا جی نے ہمیشہ کی طرح ہنس کر بات ٹال دی۔ اُس دن کے بعد میں نے اپنی طرف سے کبھی ان کو آزمائش میں نہیں ڈالا۔ آج بابا جی پتہ نہیں حیات ہوں گے یا نہیں، سوچتا ہوں کہ کاش اُس وقت بھی میری نوکری ہوتی تو اتنے شفیق بابا جی کو کبھی اس عمر میں نوکری نہ کرنے دیتا۔ اس نفسا نفسی کے دور میں جب سب اپنے بچوں کے علاوہ کسی اور کا نہیں سوچتے، بابا جی کی  پرخلوص شخصیت بہت یاد آتی ہے۔ ایسے ہی اچھے انسانوں کی وجہ سے دنیا قائم ہے۔ کئی سال بعد یہ بات سمجھ آئی کہ بابا جی کی شخصیت ایک مکمل درسگاہ تھی، انہوں نے کبھی کوئی باقاعدہ درس نہیں دیا، مگر ان کی شخصیت سے ہم نے سادگی، نرم مزاجی، برداشت، بے لوث محبت، ایثار، حسنِ سلوک اور جانے کیا کچھ سیکھا۔


Post a Comment

2 Comments

  1. Beautiful content😥😥😥. I miss my mamoo jaan after reading this. He was also such kind of sweet person❤💘💔

    ReplyDelete