جدید منفرد اردو شاعری

 

منفرد شاعری

 



وریا ز کی ڈائری سے انتخاب

دیّا

وحشت میں اندھیروں کی
مدہم سا دیا وہ
مانندِ اشکِ باراں
پُرنم سا دیا وہ

بے کیف زندگی کے
بکھرے ہوئے لمحوں میں
تنہائیوں کا ساتھی
ہمدم سا دیا وہ

خاموش لگ رہی تھی
جلتی ہوئی لو جس کی
مسحور کر رہا تھا
موسم سا دیا وہ

آنگن کی خامشی میں
تاروں کو تک رہا تھا
شاعر سا لگ رہا تھا
قلزم سا دیا وہ


 تلاش 

سنا کرتے تھے بچپن میں
وہ ایک گم نام سا قصہ
کہ جس میں آدمی
پیچھےپلٹ کر
سنگ ہو جاتا

بہت مدت ہوئی بھولے ہوئے
وہ عام سا قصہ
مگر اُس روز جانے کیوں
سڑک پر بے سبب چلتے

تھکی آنکھوں نے کچھ دیکھا
تو پتھر ہو
گئیں یکد م
میری دھرتی کا ایک بچہ
کڑے موسم کی تلخی میں

شکستہ حال چہرے پر
اداسی کا کفن پہنائے
تلاشِ رزق کی خاطر
غلاظت کے کسی انبار پر جھک کر

مقدر ڈھونڈتا تھا


خزاں کہانی

وہ چبھتی نظریں، وہی حقارت
ہوئی تھی جس سے فرار، پت جھڑ

وہ سرد مہری، وہ تلخ طعنے
سہے گی پھر ایک بار پت جھڑ

تکے گی پھر دیدہ ور کی راہیں
کرے گی پھر انتظار پت جھڑ

حسین نظاروں کی آس لے کر
بھرے گی دامن میں خار پت جھڑ

چلے گی نفرت کی راہ گزر پر
تھکی تھکی سوگوار پت جھڑ

اداس لمحوں کی وحشتوں میں
تکا کرے گی غبار پت جھڑ

ازل سے خلقت خفا ہے اس سے
سنے گی شکوے ہزار پت جھڑ

کرے نہ پھر بھی سنگھار پت جھڑ
بنے نہ مثلِ بہار پت جھڑ

کہ بابِ فطرت سے سر ٹکائے
ہے آج پھر اشکبار پت جھڑ

 

 



کٹھ پتلی

ڈوروں میں کسی کٹھ پتلی
کرتب گھر کے کونے میں
زیور سے سجی رہتی ہے
خاموش پڑی رہتی ہے
چھا جاتا ہے سناٹا
جب بھی بہروپ نگر میں
اپنی ویران آنکھوں سے
تنہائی کو تکتی ہے
اپنے بے جان لبوں سے
جانے وہ کیا کہتی ہے
بے چین ہوا کے جھونکے
بے کل موسم کی گردش
منڈیر کے باغی پرندے
اوربن موسم کی بارش
اس کی باتیں سنتے ہیں
ایسے میں کسی کی آہٹ
خوابوں کی پنکھڑیوں کو
بے وجہ مسل دیتی ہے
ایک
بازیگرکی آمد
ماحول بدل دیتی ہے
ڈوروں میں کسی کٹھ پتلی
خاموش پڑی رہتی ہے
انجان بنی رہتی ہے


 

 وہ کہتے ہیں کہ میں گم صم سا رہتا ہوں۔

جو مجھ کو ڈھونڈنا چاہو...
جنون میں بے سبب چلتے


کسی بن میں نکل جاؤ
کہ مجھ کو شہر کی آبادیوں سے خوف آتا ہے
مجھے وحشت سی ہوتی ہے
مسلسل گفتگو سن کر
خصوصاً روبرو سن کر۔

وہ کہتے ہیں کہ میں گم صم سا رہتا ہوں
وہ میری ذات کی تنہائیوں پر بات کرتے ہیں
بہت بے باک کرتے ہیں
میں ان سے ہٹ کے رہتا ہوں
اندیشوں کے تصادم سے ہمیشہ کٹ کے رہتا ہوں
وہ کہتے ہیں کہ اپنی الجھنوں میں بٹ کے رہتا ہوں

وہ شاید ٹھیک کہتے ہیں
مگر یہ بھی حقیقت ہے
انہیں میرا پتہ معلوم ہوتا ہے
کہ ان میں سے ہر اک مجھ سے قریباً روز ملتا ہے

بناوٹ کا تبسم بھی لبوں پر خوب کھلتا ہے
ہمیشہ ہنس کے کہتے ہیں
"تمہیں ہم ڈھونڈ لیتے ہیں"
مگر۔۔۔ یہ بھی حقیقت ہے
میں وہ انسان نہیں
جس سے وہ گھنٹوں بات کرتے ہیں

میں اپنی آگہی کی دھند میں مستور ہوں شاید
کہ اپنی ذات کے زندان میں محصور ہوں شاید
بہت مجبور ہوں شاید
وہ کہتے پھر بھی ہیں مغرور ہوں شاید۔۔۔


 

عام آدمی کی آنکھیں            

صدیوں کے غم سمیٹے، ویران سی آنکھیں
ایک عام آدمی کی پریشان سی آنکھیں

پلکوں کے سائبان میں، سہمی، ڈری ڈری سی
بنگلوں کو تکنے والی، حیران سی آنکھیں

تنہائیوں کی رسیا، آبادیوں سے خائف
خوابوں میں رہنے والی، نادان سی آنکھیں

بھٹکی ہوئی یادوں کے، گمنام دریچوں میں
گزرے ہوئے لمحوں کی، بے جان سی آنکھیں

کچھ دیکھتے ہی جیسے، ساکت سی ہو گئی ہوں
بے نام، اجنبی سی، انجان سی آنکھیں

مثلِ قفس یہاں بھی، ارمان رُل رہے ہیں

آزاد زندگی میں، زندان سی آنکھیں 


 فلک کیوں وا نہیں ہوتا؟


میں اکثر کھو سی جاتی ہوں
فلک کے کل نظاروں میں
بکھرتا ٹوٹتا کوئی ستارہ
کب نہ جانے اپنے پتھر دل مداروں سے
کوئی فریاد کرتا ہے
سلگتی رات کی گمنام تاریکی
کسی ویران گوشے میں سمٹ کر ڈوب جاتی ہے
فلک کے آخری کونے میں
ایک باغی پرندہ
فکر کی بے کل اڑانوں میں
گھٹاؤں کے کسی پاتال میں چُھپ کر
  انوکھے گیت گاتا ہے
مجھے کچھ یاد آتا ہے
اکیلا چاند بھی گویا
کسی بے نام سے
ایک دیدہ ور کی راہ میں
صدیوں بھٹکتا ہے
بڑی مد ت سے میں اس ایک ہی  ناٹک کی ناظر ہوں
زمین کے لوگ کہتے ہیں
فلک کو گھورتی رہتی ہے، پاگل ہے
میں کس امید پر جانے تھکی راتوں کی وحشت میں
کسی خاموش آنگن سے
تماشا دیکھتی رہتی ہوں اور حیران ہوتی ہوں
نہ جانے کس لئے ہستی کی پھیکی بزم میں
کوئی نیا قصہ نہیں ہوتا؟
اگر یہ راز ہے
مالک
تو کیوں افشا نہیں ہوتا؟
فلک کیوں وا نہیں ہوتا؟


 
 
کُوچ

گونج اُٹھی بانگِ درا
چل پڑے سب قافلے

پیڑ کی شاخوں کے تلے
رک گئے کچھ دل جلائے

حسرتوں کے سلسلے
وحشتوں سے جا ملے

چھا گئی کالی گھٹا
شاخ پر پتے ہلنے لگے

خوشبوئیں حیران ہوئیں
جب گلِ بے رنگ کھلے

اوس کے آنسو بہے
تشنہ لب گل کے لئے

آفتاب آتش ہوا
جھیل سے پنچھی اُڑے




وقت کی دیوار

میں اپنے وقت کی دیوار میں کب سے مقید ہوں
گئے وقتوں کا قصہ ہے
کہ اس دیوار کے پیچھے
شکست و ریخت کا مارا
کوئی تیمور بیٹھا تھا
وہی تیمور جس نے بے زبان کمزورچیونٹی سے
فتح کا درس سیکھا تھا
وہ اپنے دور کا راجہ
میں اپنے دور کا کمی
میں گر ویسی بلندی کا سہانا خواب جو دیکھوں
تو میرے عہد کا آقا
مجھے گمنامیوں کی پستییوں میں غرق کر دے گا
بغاوت کا جو گر سوچوں
تو اس دیوار کے تاریک گوشے سے
کسی غمگین لونڈی کی کوئی سسکی
میری سب خواہشوں کا خون کر دے گی
مجھے خاموش رہنے دو


 جذبے  بے سخن

 

سنا ہے خامشی کے لب نہیں ہوتے
مگر پھر بھی نہ جانے کیوں
کبھی جب دل کی وادی میں
اتر کر ہم تھکے ہارے
گھنے راستوں کو تکتے ہیں
تو ایسے میں کبھی یکدم
کسی گم نام دنیا کا
کوئی انجان سا باسی
دبے قدموں ہمیں آ کر
گزشتہ کا کوئی قصہ
سنا کر لوٹ جاتا ہے
مگر ہم پھر بھی کہتے ہیں
کہ ایسے بے سخن جذبے حقیقت کب نہیں ہوتے
مگر ہاں خامشی کے لب نہیں ہوتے


                   ہم لوگ                        

الجھنوں میں گِھرے بےخبر لوگ ہم
راہ چلتے ہوئے، دربدر لوگ ہم

اپنے خوابوں کی دنیا بسا کر کہیں
خود بکھرتے رہے ہر نگر لوگ ہم

زخمِ پنہاں لیے مسکراتے رہے
گیت گاتے رہے بے اثر لوگ ہم

خواہشوں کے سحر میں بھٹکتے رہے
بحرِ
حالات کے جادوگر لوگ ہم

اجنبی منزلوں کے جنوں میں مگن
حیف کرتے رہے بس سفر لوگ ہم

عالمِ آب و گِل میں گرفتار ہیں     

کیا خطا کار ہیں اس قدر لوگ ہم؟

تربتِ حال کی ظلمتوں کے مکیں
وقت کے جوہری، بے ہنر لوگ ہم
 

 





  بچپن کے دور کی نظمیں



 

     کاش مجھے اُڑنا آجائے              

کاش مجھے اُڑنا آجائے، میں بادل کو چھو لوں
تاروں کو اندر سے دیکھوں، چاند پہ جھولا جھولوں
جادوگر سے منتر سیکھ کے میں غائب ہو جاؤں
نگر نگر کی سیر کو نکلوں، کسی کو نظر نہ آؤں

پھولوں سے باتیں کر کے جب تتلی باغ سے جائے
مجھ کو اپنے پاس بُلا کے اپنے رنگ دکھائے
چندا سے کچھ نور چرا کے اپنی گود میں بھر لوں
اور اس نور کو اپنی اندھیری دنیا کا کر لوں

شام ڈھلے تو جھیل نگر سے جو بھی پنچھی جائیں
میں بھی اُن کے ساتھ چلوں، وہ مجھ کو گیت سنائیں
کاش مجھے بھی غار کے بونے اپنے دیس بلائیں
اور بُلا کر اپنے دیس کے سارے راز بتائیں

کتنا اچھا ہو گر سارے سپنے سچ ہو جائیں
شفق، دھنک اور تارے، برکھا ہم سے ملنے آئیں
سچ میں دل خواہش کی دنیا، آنکھیں خواب نگر
آدم ایک مسافر ٹھہرا، جیون ایک سفر

    

 

 

 

 

 

 

 

      بچپن

کسی تشنہ کلی پہ پھر سے شبنم کا چمک اٹھنا
چمن کے خار پر بھی شوخ گُل سا ڈھنگ رہ جانا

کہ بچپن کی رُتوں کا یوں ہمارے سنگ رہ جانا
خزاں میں بھی گلوں کا روپ شوخ و شنگ رہ جانا

تصور ناؤ بن کر یاد کی جھیلوں میں جب اترے
تو اس کی دلکشی پہ ہر زباں کا گنگ رہ جانا

غموں کی قید سے عاری زمانہ یاد کرنے پر
عقل کا کس قدر حیرت سے گویا دنگ رہ جانا

گیا بچپن بسا کر دل میں یادوں کا عجب لشکر
کہ جیسے حسرتوں کے کربلا میں جنگ رہ جانا

کہ جیسے خواہشوں کا چشمِ تر کی قید میں رہنا
بیابان میں گلِ بے نام کا بے رنگ رہ جانا

مہکتی وادیوں سے بلبلوں کا کوچ کر جانا
محل کے آہنی کھنڈر پہ گویا زنگ رہ جانا

کہ جیسے ابرِ باراں ہم سے گویا روٹھ سے جائیں
سلگتے ساحلوں پر کچھ لڑھکتے سنگ رہ جانا

 

 

 

 

    

بچپن کے  خوف

وہ جو ایک پیڑ پرانا سا ہے
کسی بدروح کا ٹھکانہ سا ہے
وہ کالی دیگ جو بے کار سی ہے
میری مانو تو پراسرار سی ہے

یہ جو کوئل کی کہیں کوک سی ہے
تمہیں لگتا نہیں مشکوک سی ہے؟
سیاہ بلی جو ہے آنگن میں تیرے
وہ بلی ہی کہاں ہے بھائی میرے؟

یہ جو ٹوٹا ہوا مٹکا سا ہے
دل کو اس سے بھی تو کھٹکا سا ہے
گلی میں آخری خالی جو گھر ہے
سنا ہے اس پہ بھوتوں کا اثر ہے

وہاں روحیں پرانی ہیں بھٹکتی
ہیں کچھ چمگاڈریں الٹی لٹکتی
یہ گڑیا کی نظر مجھ پر ہی کیوں ہے؟
یہ کوا بھی میرے سر پر ہی کیوں ہے؟

ڈرائیں  بھوت ڈِرَیکولا کی آنکھیں
ستائیں سرخ وہ شعلہ سی آنکھیں
کہیں آنکھیں وہ مجھ کو پا ہی نہ لیں
کہیں وہ بھوت مجھ کوکھا ہی نہ لیں

میرے آنگن میں اندھیرا سا کیوں ہے؟
عجب ایک خوف کا ڈیرہ سا کیوں ہے؟
مگر میں خوف دل میں لاؤں ہی کیوں؟
 خود کو بے وجہ یوں ڈراوں ہی کیوں؟

لبوں پہ جو ہو ذکرِ پاک جاری

تو ہوگا پھر کہاں یہ خوف طا ری


   

 

 

 

       جادو نگری


ارمانوں کا اُڑن کھٹولا 
اور جیون اِک جادو نگری
میٹھے سپنوں کی جل پریاں
اور تقد یر کی کھُل جا سم سم

خوشیوں کا مہتاب دمکتا
اور سکون کی جھیل سنہری

یادوں کا کوہِ قاف انوکھا
موسم کے خوش رنگ نظارے

ایک وفا کا آس محل
اور جنون کا دیس حسیں
خواب نگر کے پیارے پنچھی
اور خیالوں کے سب جگنو

ارمانوں کا اُڑن کھٹولا
اور جیون اِک جادو نگری


 

 



 



Post a Comment

0 Comments