ہماری دادی اماں بہت رحم دل اور نیک خاتون تھیں۔ میں نے انہیں آخری عمر تک ہمیشہ عبادت میں مشغول دیکھا۔ ان کی بہت سی باتیں بہت خاص ہیں لیکن آج میں جس بات کا ذکر کرنا چاہتی ہوں وہ ان کی زندگی کا ایک بے حد قیمتی رخ تھا۔ انہیں جب بھی پتہ چلتا کہ باہر کوئی خواجہ سرا پیسے مانگنے آیا ہے تو وہ فوراً بے چین ہوجاتی تھیں، اپنی جائے نماز تہ کر کے رکھ لیتی تھیں اور فوراً صحن کی طرف روانہ ہوجاتی تھیں۔ انہیں اس وقت تک چین نہیں آتا تھا جب تک اپنے ہاتھ سے اُس کو کچھ رقم نہ پکڑا دیتی تھیں۔ ہم بچے بہت حیران ہوتے کیونکہ وہ عام طور پر بھکاریوں کے سخت خلاف تھیں۔ ہمارے پوچھنے پر وہ کہتی تھیں، "ان کی زندگیاں بہت غمگین ہوتی ہیں، اور غمگین بندہ اللہ کے بہت قریب ہوتا ہے، ان کا خیال رکھا کرو، اگر کبھی پیسے نہ بھی ہوں تو جھڑکنے کے بجائے احترام اور محبت سے بات کیا کرو ان سے، ان سے دعائیں لیا کرو۔ یاد رکھنا، اچھا نصیب چھوٹی چھوٹی نیکیوں، دوسروں کا دل خوش کرنے اور ان سے دعائیں لینے میں چھپا ہوتا ہے۔"
بچپن کا دور تھا، ہمیں اس بات کی کچھ خاص سمجھ نہیں آتی تھی، لیکن ہماری ایک کزن جمیلہ باجی جو ہم سے تقریباً 7 سال بڑی تھیں، وہ دادی کی بات بہت غور سے سنتی تھیں۔ خاص طور پر اس بات کو تو جیسے انہوں نے اپنے پلو سے باندھ لیا تھا، اُس وقت ان کی عمر کوئی 15 سال ہوگی۔ ہمارے علاقے میں خواجہ سرا بہت کم آتے تھے، لیکن جیسے ہی آتے، جمیلہ باجی فوراً اپنا جیب خرچ نکال کر لے آتیں اور ان کو پکڑا دیتی تھیں، صرف یہی نہیں، وہ گھر سے کھانا لا کر انہیں کھلاتی تھیں۔ وہ وہیں گھر کے باہر فٹ پاتھ کی سائیڈ پر بیٹھ کر کھا لیتے، ہم بچے ان کے آس پاس منڈلاتے رہتے، ان کے میک اپ زدہ چہروں اور نیل پالش لگے ہاتھوں کو غور سے دیکھتے، ان پر ہنستے، لیکن وہ آرام سے کھانا کھاتے اور ہاتھ اٹھا کر جمیلہ باجی کی اچھے نصیب کی دعائیں کرتے تھے۔ اور نہایت پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر واپس چلے جاتے تھے۔ ایک خواجہ سرا جو تھوڑا بزرگ تھا، وہ جمیلہ باجی سے نہ جانے کیا کیا باتیں کرتا تھا، اُس دوران کبھی کبھار اس کی آنکھوں میں آنسو اور آواز میں درد محسوس ہوتا تھا۔ وہ خاص طور پر جمیلہ باجی کو بہت سی دعائیں دے کر جاتا تھا۔ ہمارے گھروالوں، خصوصاً جمیلہ باجی کے بھائیوں کو جمیلہ باجی پر سخت غصہ آتا تھا اور وہ ہر تھوڑی دیر بعد باہر آتے اور انہیں غصے سے گھور کر اندر چلے جاتے۔ جس کی وجہ سے اس تمام تر معاملے کا دورانیہ کافی مختصر ہوتا تھا۔
بہر حال، وقت گزرتا گیا۔ اس بات کو تقریباً 30 سال گزر گئے لیکن آپ یقین کیجئے جمیلہ باجی کو خدا نے ہر معاملے میں بہت نوازا، ان پر ہمیشہ خصوصی فضل و کرم رہا۔ انہیں تمام رشتہ دار بہت پُر خلوص، قدر کرنے والے اور عزت دینے والے ملے۔ اگرچہ شادی کے بعد وہ جس گھر میں گئیں وہ مالی لحاظ سے بہت مستحکم تھا لیکن پھر بھی وہ اپنی پسند کی جاب کرنا چاہتی تھیں، کیونکہ وہ زمانۂ طالب علمی میں ہمیشہ اول آتی تھیں، عجیب بات یہ ہے کہ وہ جہاں بھی ارادہ ظاہر کرتی، انہیں جاب مل جاتی اور ارد گرد تمام لوگ ان کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے
ان کے تمام بیٹے بھیبہت اچھی پوسٹس پر فائز ہوئے۔
ایک مرتبہ کسی نے مجھے بتایا کہ تمہاری یہ کزن تو اپنے سسرال والوں کو کچھ زیادہ ہی پسند ہے، میں نے پوچھا وہ کیسے؟ تو کہا کہ جو بھی بیرونِ ملک سفر پر جاتے ہیں، واپسی پر نہایت قیمتی تحفے ان کے لیے خاص طور پر لا کر دیتے ہیں، جیسے ہیرے کے زیورات وغیرہ۔ میں یہ سن کر دنگ رہ گئی، اور جانے کیوں اچانک میری آنکھوں کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھا وہ بوڑھا خواجہ سرا آ گیا جو کھانے کے بعد اپنا دوپٹہ پھیلا کر، آنکھوں میں آنسو لیے ان کے نصیب کی دعائیں کرتا تھا۔
0 Comments