ہمارے ایک عزیز ایک فلاحی ادارے سے منسلک تھے، ان کا کام غریب مہاجرین اور یتیم بچوں میں راشن تقسیم کرنے کا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ہمیں معلوم ہوا کہ وہ تقسیم کے کاموں میں ہیرا پھیری کرتے ہیں اور یتیموں کے راشن کا سامان (گوشت وغیرہ) ان کے اپنے فریج میں بھی پایا گیا۔ خدا جانے یہ سچ تھا کہ نہیں لیکن مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا۔ انہی دنوں میں نے ایک اور بات بھی سنی کہ ایک سیٹھ صاحب نے ایک مقامی مسجد میں سود کے خلاف بار بار بیان دینے پر امام صاحب کو ڈانٹ دیا کیونکہ سیٹھ صاحب کا پورا کاروبار ہی سودی تھا۔
اس قسم کے واقعات پر دل افسردہ تھا ہی کہ ایک روز میرے دفتر کے ساتھی نے پریشانی کے عالم میں ذکر کیا کہ اس کے ذمے ایک کانفرنس منعقد کرنے کا انتظام تھا لیکن نچلے اسٹاف نے اچھی خاصی بددیانتی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے وہ سخت اذیت میں مبتلا ہیں۔ معلوم ہوا کہ کاغذات میں بل کی ادائیگی تقریباً 80 ہزار درج کی گئی ہے لیکن سامان کوئی پینتیس ہزار سے بھی کم ہے، باقی رقم کا کچھ پتا نہیں کہ وہ کہاں استعمال ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ ہی روز پہلے میری بھانجی نے ذکر کیا کہ اب آپ بیس ہزار روپے دے کر پی ایچ ڈی کا تھیسس بھی آن لائن کسی سے لکھوا کر پی ایچ ڈی کی ڈگری آرام سے حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ اس علمی دکانداری میں تاجر بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور اے آئی بھی میدان میں آ گیا ہے، لہٰذا تھیسس لکھنے کی قیمت روز بروز گرتی ہی جا رہی ہے، اب آپ کو 10 ہزار والے دکاندار بھی با آسانی مل جاتے ہیں جو خود بارہویں پاس ہوتے ہیں لیکن اے آئی کی مدد سے چند منٹوں میں پی ایچ ڈی کا اچھا خاصا تھیسس لکھ لیتے ہیں۔
اسی بھانجی نے یہ بھی بتایا کہ کیسے اس کی پروفیسر اساتذہ ان کے امتحانی پرچے خود چیک کرنے کے بجائے طالبات سے چیک کروا کر ان کو اس کی تھوڑی سی قیمت ادا کر دیتی ہیں۔ یہی نہیں، ہماری ایک عزیزہ لمبے عرصے تک ایک دیہی علاقے میں بطورِ سرکاری ٹیچر بھرتی رہیں لیکن ڈیوٹی پر ان کے بجائے ایک اور لڑکی جاتی رہی، تنخواہ باقاعدگی سے ان عزیزہ کے اکاؤنٹ میں آتی رہی جس کا کچھ معمولی سا حصہ وہ اس لڑکی کو ہر ماہ بھیج دیا کرتی تھیں۔
خود میرے ساتھ بارہا ایسا ہوا کہ میں نے اپنے کئی جاننے والوں کو اچھی خاصی بڑی رقم بطورِ قرض دی، لیکن انہوں نے کئی کئی سال گزرنے کے باوجود واپس نہیں کی، اور نہ کبھی واپس کرنے کا ذکر ہی کیا۔ خود پوچھنا بھی اچھا نہیں لگتا۔
بہرحال، یہ اور اس طرح کے اور واقعات دیکھ کر دل سخت اُداس تھا۔ مگر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے انسانوں پر میرا اعتماد پھر سے بحال کر دیا۔ ایک روز دوپہر کو میں گھر پر سو رہا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میری آنکھ کھل گئی، جلدی سے تیار ہو کر گیٹ کھولا تو دیکھا کہ ایک لڑکا کھڑا ہے، جو چند ماہ پہلے تک ہمارے دفتر میں کام کرتا تھا اور ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اُس نے ملازمت چھوڑ دی تھی۔
میں اُسے اچانک دیکھ کر حیران رہ گیا اور اُسے اندر بلایا تو اُس نے بتایا کہ وہ جلدی میں ہے کیونکہ وہ لوگ یہ شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر منتقل ہو رہے تھے۔ بہرحال، اُس نے جو اگلی بات کی، اُسے سن کر میں حیران رہ گیا۔ اُس نے کہا کہ: آپ کو یاد ہے، ایک مرتبہ میں اپنی سمسٹر فیس جمع کروانے جا رہا تھا تو اچانک اندازہ ہوا کہ رقم میں کوئی 500 کے قریب روپے کم ہیں۔ مجھے تنخواہ بھی نہیں ملی تھی، تو آپ نے اُس وقت مجھے 500 روپے دیے تھے۔ اب جب ہم ہمیشہ کے لیے یہ شہر چھوڑ رہے ہیں، تو میں آپ کو یہ قرض لوٹانے آیا ہوں۔
مجھے بہت حیرت ہوئی، میں نے اُسے رقم واپس کرنے سے بہت روکا اور کہا کہ تم میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہو، یہ بہت معمولی رقم ہے۔ لیکن وہ نہیں مانا، اُس کا کہنا تھا کہ زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے کسی سے قرض لیا، اور اس کا بہت بوجھ تھا میرے دل پر۔ میرے والد کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ قرض لینا مشکل ہوتا ہے، پھر بدقسمتی سے انسان عادی ہو جاتا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ فاسد اور بے ایمان ہو جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ میری طرف سے یہ رقم کسی کو صدقہ کر دیتے، تو اُس نے کہا:
بہتر یہی ہے کہ مالک خود اپنے ہاتھ سے صدقہ کرے، اور ویسے بھی جناب، قرض تو شہید کا بھی معاف نہیں ہوتا۔
اُس نے مزید کہا کہ بس خدا سے یہی دعا ہے کہ وہ مجھے ہمیشہ آسان، حلال اور طیب رزق سے نوازے، اور ساری عمر بدعنوانی سے دور رکھے۔
اس نہایت مختصر سی ملاقات کے بعد وہ نوجوان چلا گیا، اور جاتے جاتے انسانیت پر بالعموم، اور نئی نسل پر بالخصوص، میرا کھویا ہوا اعتماد بحال کر گیا۔
(Sender: Tay***)
0 Comments