واقعہ :انسان کی حقیقت

 

اس روز آاس نگر میں ایک پرانے استاد کا قیمتی واقعہ ملا تو میں بھی اپنے ماضی کی یادوں میں کھو گئی۔ میں نے بھی ایک لمبا عرصہ نوکری کی ہے اور اس دوران طرح طرح کے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زندگی میں آنے والے کئی لوگ بچھڑتے جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے لوگ لیتے رہتے ہیں۔ زندگی کا سفر کٹتا جاتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے، ہزاروں لوگوں سے ملنے کے بعد جو لوگ زندگی بھر دل میں رہتے ہیں، وہ کوئی بہت تیز، عقل مند، چالباز یا بڑے بڑے عہدوں والے نہیں ہوتے بلکہ نہایت سادہ طبیعت، مخلص، اور خوش اخلاق لوگ ہوتے ہیں۔

آج کل تو کوئی بھی علمی تحقیق کرنا بہت آسان ہوگیا ہے، ہمارے وقت میں ایسا نہیں تھا، ہمیں اپنے دورِ طالب علم میں مختلف درسگاہوں کے کتب خانوں میں جانا پڑتا تھا، تب کہیں جا کر ہمارے استاد ہماری کی گئی تحقیق کو قبولیت کی سند فراہم کرتے تھے۔ اسی دور کی ایک پروفیسر صاحبہ تھیں، جن کا نام سمجھیں "میڈم جی ایم" تھا، وہ اپنے علم میں بہت ماہر سمجھی جاتی تھیں، کیونکہ وہ ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ بھی تھیں، لہذا ہر ایک پر ان کا خوب رعب و دبدبہ تھا۔ ہم سب ان سے بہت ڈرتے رہتے تھے، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وہ سب کو خوب ڈرا کر رکھتی تھیں اور اپنے اس عمل پر نہ صرف خوش ہوتیں بلکہ فخر سے بتاتی تھیں کہ ایک مرتبہ ایک طالبہ ان کے خوف کی وجہ سے پریزنٹیشن دیتے ہوئے بے ہوش بھی ہو گئی تھی... بہرحال، سچی بات یہ ہے کہ ہم تو دن گنتے تھے کہ کب ان کے ساتھ ہماری آخری کلاس ہو اور ہماری جان چھوٹے کیونکہ وہ سب کی کافی بے عزتی کرتی تھیں۔

وہ ادب و آداب کا دور تھا، لہٰذا ہم احترام کی وجہ سے اونچی آواز میں بات کرنا تو درکنار، نگاہ اٹھا کر دیکھنے سے بھی اجتناب کرتے تھے۔ وہیں پر ایک میڈم شیریں بھی تھیں جو اپنے نام کی طرح شیریں تھیں، طلباء کے ساتھ ان کا تعلق بہت محبت والا تھا۔ اکثر اوقات طلبہ ان سے راستے میں چلتے ہوئے ہی کوئی سوال پوچھ لیتے تو وہ انہیں بہت احترام اور محبت سے اپنے دفتر میں بٹھا کر تفصیل سے سمجھاتی تھیں۔ کبھی کبھار کسی طالبہ کو کسی استاد کے انتظار میں دھوپ میں کھڑا دیکھتیں تو اپنے دفتر بلا کر بٹھا دیتیں... ان کا بات سننے کا انداز بھی بہت خوبصورت تھا، یوں لگتا جیسے وہ کوئی شفیق بڑی بہن ہوں۔ وہ کیونکہ ڈاکٹر نہیں تھیں، لہٰذا ان کے پاس کوئی بڑی پوسٹ نہ تھی، ہاں البتہ ان کا علم کمال کی حد تک اعلیٰ تھا، ہر گتھی یوں سلجھا دیتی تھیں جیسے کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔

وقت گزرتا گیا، ہم اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوگئے۔ ایک روز کافی سال بعد اپنی ایک دوست گل سے ملاقات ہوئی۔ گل نے باتوں باتوں میں کہا پتہ ہے یار، میں یونیورسٹی گئی تھی، ایک ضروری کام تھا، میڈم شیریں سے ملی، ان کے چہرے پر عمر کے آثار آگئے ہیں لیکن وہ اور بھی زیادہ پیاری اور باوقار دکھتی ہیں اب... اسی طرح ملنسار اور شفیق سی ہیں... بہت مزہ آیا مل کر، دل چاہ رہا تھا ان کے پاس بیٹھی ہی رہوں...

میں نے پوچھا، " میڈم جی ایم سے بھی ملاقات ہوئی؟" تو وہ چونک گئی اور کہا... "اوہ میڈم جی ایم....؟ یار عجیب بات ہے، وہ تو ایک سیکنڈ کے لیے بھی ذہن میں نہیں آئیں ورنہ شاید سلام تو کر ہی لیتی میں... " اس نے مزید کہا... "ویسے کتنی عجیب بات ہے ، اپنی پوری کلاس میں سب سے زیادہ میں ہی ان سے ڈرتی تھی،... اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی کے لیے دل میں جگہ نہ ہو تو چاہے وہ جتنا مرضی اعصاب پر سوار ہو، ایک مخصوص وقت کے بعد یاد آنا تو درکنار، اس کی سوچ آنا بھی ختم ہوجاتی ہے۔

ہم دونوں کافی دیر زندگی کے اس پہلو پر بات کرتے رہے۔ اسی سے ملتی جلتی ایک اور بات مجھے یاد آئی کہ ایک مرتبہ ہماری ایک پرنسپل کا انتقال ہوگیا، جس قبرستان میں ان کو دفن کیا گیا، وہاں ایک مرتبہ ہماری ایک ٹیچر اپنے کسی عزیز کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئیں تو یہ دیکھ کر ٹھٹھک گئیں کہ ساتھ والی قبر انہی پرنسپل صاحبہ کی تھی، انہوں نے بتایا کہ میں ان کی قبر کے قریب کھڑی سوچ رہی تھی کہ یہ انسان کی حقیقت ہے، میں زندگی میں کبھی ان کے اتنے قریب کھڑے ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی، کبھی پتہ چلتا کہ میڈم نے اپنے دفتر بلایا ہے تو جان ہی نکل جاتی تھی

خیر باتوں کے دوران یہ موضوع بھی زیرِ بحث آیا کہ ہم سب ساری عمر ایک سے ایک ڈگری جمع کرنے کے چکر میں رہتے ہیں، لیکن کبھی یہ بات محسوس کی کہ جب بھی کوئی نیا باس، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، کسی بھی ادارے میں آتا ہے تو کوئی بھی یہ نہیں پوچھتا کہ ان کی تعلیمی قابلیت کیا ہے، تجربہ کتنا ہے، وغیرہ وغیرہ، سب یہی پوچھتے ہیں کہ ان کا اخلاق کیسا ہے؟ دوسروں کے ساتھ سلوک کیسا ہے، بدمزاج تو نہیں، غصہ تو نہیں آتا زیادہ؟ مغرور تو نہیں؟

یہ سچ ہے کہ جب کبھی انسان اپنے گرد و پیش پر غور کرے تو زندگی اور لوگوں کے حوالے سے ایسے ایسے پہلو اجاگر ہوتے ہیں کہ انسان حیرت کے سمندر میں ڈوبتا چلا جاتا ہے، زندگی واقعی ہماری سوچ سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔

 


                                                                                                                                        (Sender: Mua*** )

Post a Comment

0 Comments