سچا واقعہ: ان کو تنخواہ وقت پر ملتی رہی


آس نگر کی یہ کاوش بہت اچھی لگی کہ یہاں لوگوں کو اپنی زندگی کے خوبصورت سچے واقعات قلمبند کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ بلا شبہ اس سے ہم میں سے ہر ایک کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ یعنی جو کچھ سیکھنے میں انسان کو ایک عمر لگ جاتی ہے، وہ ہمیں ایک لمحے میں مل جاتا ہے اور مجھ جیسے شخص کی تو اصل سیکھ ہی واقعات سے ہوتی ہے، میں تو بہت لطف لے کر پڑھتی ہوں۔

ایک دفتر کا واقعہ پڑھا تو مجھے بھی بے اختیار اپنے دفتر کا ایک خوبصورت واقعہ یاد آگیا۔ میں کافی پہلے ایک چھوٹے سے اسکول میں نوکری کرتی تھی، وہاں موجود تمام لوگ بہت اچھے تھے۔ سرکاری اسکول تھا تو تنخواہ کچھ زیادہ نہیں تھی، لیکن سادگی اور خلوص کا دور تھا تو وقت اچھا گزر رہا تھا۔ وہاں ایک ایسی خاتون، خمار بی بی بھی خادمہ کے طور پر ملازمت کرتی تھیں جن کی عمر اندازاً 70 کے آس پاس ہوگی۔ میں نے سنا تھا کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے کچی ملازمت پر تھیں، غالباً افغانی تھیں لہٰذا شناختی کارڈ نہ ہونے اور دیگر کچھ سرکاری مجبوریوں کی وجہ سے ان کی ملازمت پکی نہ ہوسکی۔ وہ ایک نہایت سادہ طبیعت اور محنتی خاتون تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے کسی پر بوجھ بننا پسند نہیں، اسی لیے اس عمر میں بھی کام کرکے مجھے راحت ملتی ہے۔ بہرحال، وہ جھاڑو پونچھا، مٹی صاف کرنا، چائے بنانا، کاغذات ایک دفتر سے دوسرے لے جانا اور جانے اور کیا کچھ کرتی تھیں۔ ہم نے انہیں فارغ بیٹھے کم ہی دیکھا ہوگا۔

بہرحال، بڑھاپا ایک تلخ حقیقت ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باوجود کوشش کے ان میں وہ پھرتی باقی نہ رہی جو کبھی پہلے ہوا کرتی تھی، لیکن اس کے باوجود وہ خال ہی کبھی غیر حاضر ہوتی تھیں۔

انہی دنوں ہماری انتظامیہ بدل گئی، نئے لوگ آئے، نئے قوانین آئے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ نئے لوگ اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے آتے ساتھ ہی کچھ نئے قوانین سامنے لاتے ہیں، ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ دوسرے کئی قوانین کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ کیا گیا کہ جو غیر ضروری کچی بھرتیاں کی گئی ہیں، ان کو فارغ کیا جائے تاکہ صوبائی خزانے پر بوجھ کم ہوسکے۔

اسی ضمن میں سب سے پہلے جن لوگوں کو فارغ کیا گیا ان میں خمار بی بی بھی تھیں۔ جب انہیں یہ پتہ چلا تو ان کے پیروں تلے جیسے زمین کھینچ گئی۔ انہوں نے اپنے طور پر کئی پرانی اساتذہ کو بات کرنے کے لیے میڈم کے پاس بھیجا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ وہ بہت سخت غمگین رہنے لگیں۔ انہیں واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ وہ اگلے ہفتے سے نہ آئیں کیونکہ ادارے کے پاس کچی بھرتیوں کی تنخواہ کے پیسے نہیں ہیں۔ ہم سب بھی اس بات پر بے حد دکھی تھے لیکن کچھ نہ کرسکتے تھے۔

خیر، اگلے ہفتے دیکھا کہ خمار بی بی خوشی خوشی پھر کام پر آرہی ہیں۔ پتہ چلا کہ ان کی ملازمت میں توسیع کر دی گئی ہے۔ ہمیں بہت خوشگوار حیرت ہوئی۔ اس کے بعد وہ آخر تک وہاں کام کرتی رہیں۔

ایک روز ہم سب کو اپنے کچھ کاغذات کی اپنے ادارے کے بینک جا کر نئے سرے سے تصدیق کروانی پڑی۔ جب میں جانے لگی تو خمار خالہ نے مجھے روک لیا اور بولیں، "اس بینک والے بابو سے پوچھنا کہ کون سے کاغذات چاہییں، پھر مجھے سمجھا دینا تاکہ میں کل گھر سے لے آؤں۔" میں نے انہیں تسلی دی اور اطمینان دلایا کہ ایسا ہی ہوگا۔

مجھے تھوڑی دیر ہوگئی تھی، جب میں پہنچی تو بینک مینیجر اپنی فائلیں سمیٹ رہا تھا، اس نے جلدی جلدی میرے کاغذات کی تصدیق کی اور جانے لگا۔

مجھے اچانک یاد آیا کہ خمار بی بی کا بھی پوچھنا تھا، میں نے دریافت کیا تو مینیجر کہنے لگا، "وہ تو پچھلے تقریباً دو سال سے ادارے کا حصہ ہی نہیں ہیں، آپ کو یاد نہیں سارے کچے ملازمین کو فارغ کر دیا گیا تھا"؟

مجھے بہت حیرت ہوئی، میں نے کہا، "لیکن وہ توپچھلے دو سال سے اپنی تنخواہ باقاعدگی سے وصول کر رہی ہیں اور کبھی کوئی شکایت بھی نہیں کی انہوں نے اس حوالے سے"۔

مینیجر کہنے لگا، "وجیہہ میم، میں آپ کو یہ بات کبھی نہ بتاتا لیکن چونکہ مجبوری ہے تو بتا رہا ہوں"۔

خمار بی بی دو سال قبل اپنی نوکری کے اچانک ختم ہونے پر بے حد پریشان تھیں، ان کو غمزدہ دیکھ کر آپ کے اسٹاف روم کی ایک ٹیچر، محترمہ فریحہ میڈم سے ملیں۔ انہوں نے کہا کہ خمار خالہ کو اس عمر میں یہ غم دینا مناسب نہیں ہے، ان کی تنخواہ بہت معمولی سی ہے، میری آپ سے درخواست ہے کہ میں اپنی تنخواہ سے ہر ماہ راز داری سے خمار خالہ کی تنخواہ کے برابر رقم آفس میں جمع کروا دیا کروں گی، آپ انہیں ان کی تنخواہ کہہ کر دے دیا کریں، لیکن یہ راز افشا نہ ہو کسی اور پر"۔

مینیجر نے مزید کہا، "خوش قسمتی سے میڈم راضی ہوگئیں، وہ دن ہے اور آج کا دن، مس فریحہ ہر ماہ باقاعدگی اور رازداری سے خمار بی بی کی رقم دفتر میں جمع کروا دیتی ہیں۔

آپ جا کر خمار بی بی کو کہہ دیں کہ ان کے کاغذات پورے ہیں، کچھ جمع نہیں کروانا انہیں "۔

یہ سن کر میں حیرت زدہ رہ گئی۔ ایسا لگا جیسے ایک لمحے میں سارے الفاظ ختم ہوگئے ہوں۔

مس فریحہ اپنے کام سے کام رکھنے والی خاموش سی جوان ٹیچر تھیں جو زیادہ تر اکیلی ہی رہتی تھیں، پڑھاتی بہت اچھا تھیں۔ جب کبھی میڈم ان کی تعریف کرتی تھیں تو کبھی کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی دل میں حسد کے جذبات آجاتے کہ ہم سینئر اساتذہ کو جیسے نظر انداز کیا گیا ہے۔ لیکن اس واقعے کے بعد میرے دل میں ان کی عزت بہت بڑھ گئی، وہ واقعی بہت خاص تھیں۔

سچ ہے کہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے دنیا قائم ہے۔

مختصراً یہ کہ پھر میرا تبادلہ ہوگیا اور مجھے دوسرے علاقے جانا پڑا۔

خمار بی بی آخر تک اس دفتر میں کام کرتی رہیں اور انہیں تنخواہ بھی وقت پر ملتی رہی- 

ایسی بے لوث قربانیوں اور خاموش نیکیوں کے قصے ہمارے معاشرے میں موجود ہوتے ہیں، بس ہمیں ان کا علم نہیں ہو پاتا۔

😊(Sender: Waj***)

Post a Comment

0 Comments