واقعہ : اولاد پر بے حد سختی کا انجام 😔



اِن واقعات میں احتیاط کی خاطر معمولی ترمیم کی گئی ہے، جیسے کرداروں کے نام، جنس، سیاق و سباق وغیرہ، تاہم بنیادی موضوع برقرار رکھا گیا ہے۔

یہ آج سے تقریباً 25 سال پہلے کی بات ہے۔ ہم اُس وقت کراچی میں رہتے تھے۔ ہمارے پڑوس میں ایک خاندان رہائش پذیر تھا۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا (انیس) تھا۔ تینوں بچے نہایت سلجھے ہوئے، ذہین، ہنس مکھ اور معصوم تھے۔ ان کے والد پڑھائی کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ ان کا بیٹا انیس خاص طور پر اس سختی کا شکار رہتا تھا۔ جب ان کے والد دفتر گئے ہوتے تو وہاں سے بھی فون کر کے پوچھتے کہ "انیس پڑھ رہا ہے کہ نہیں"۔ انیس کبھی کبھار باہر لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتا دکھائی دیتا تھا، لیکن جیسے ہی دور سے اس کے والد کی گاڑی کی آواز آتی، وہ فوراً اپنے گھر کی جانب دوڑ جاتا اور کتابیں کھول کر بیٹھ جاتا تھا۔ ہمارے گھر کا ماحول اس کے برعکس تھا، ہم سب بہن بھائی مناسب نمبرز لے کر پاس ہو جاتے تھے، کبھی کبھی کوئی پوزیشن بھی لے لیتے تھے، لیکن انیس ہمیشہ فرسٹ آتا تھا۔ وہ کہتا تھا "اگر میں فرسٹ نہ آیا تو ابو میری کھال نہ ادھیڑ کے رکھ دیں"۔ یہ سن کر ہم حیران و پریشان رہ جاتے تھے۔ محلے کے باقی بچے بھی انیس کے والد کی سختی کے قصے سن سن کر ان سے خوفزدہ رہتے تھے اور انہیں دیکھتے ہی سلام کرنے کے بجائے ادھر ادھر کہیں چھپ جاتے تھے۔ میری امی نے ایک مرتبہ انیس کی والدہ سے پوچھا کہ آپ کے شوہر اتنی سختی کیوں کرتے ہیں بچوں پر؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ "دراصل وہ چاہتے ہیں کہ اس کا داخلہ شہر کے سب سے مشہور کالج میں ہو جائے، ابھی اس کے کالج جانے میں اگرچہ 6 سال باقی ہیں لیکن وہ ابھی سے اس پر بہت محنت کر رہے ہیں اور نہیں چاہتے کہ یہ اپنا وقت فضول کاموں میں ضائع کرے"۔ بہرحال وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ ہم دوسرے شہر شفٹ ہو گئے، اور پھر کئی سال ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ ایک مرتبہ، تقریباً 20 سال بعد میرے بڑے بھائی کو کسی کام سے کراچی جانا پڑا، انہوں نے بتایا کہ میں ایک دفتر میں اپنے ایک سرکاری کام کے سلسلے میں گیا تو ایک جانے پہچانے سے بوڑھے شخص پر نظر پڑی جو میری طرف کافی غور سے دیکھ رہا تھا۔ اسی دوران کاؤنٹر پر موجود کلرک نے میری باری آنے پر میرا نام پکارا، میں اپنا کام مکمل کر کے وہاں سے نکلنے لگا کہ وہ بوڑھا شخص میرے پاس آیا اور کہا "بیٹا، مجھے پہچانا آپ نے؟ میں کاظم ہوں، انیس کا والد؟" یہ سن کر میں حیران رہ گیا، وہ کافی کمزور اور ضعیف ہو چکا تھا، چہرے پر کافی جھریاں تھیں، میرے ابو عمر میں بڑے تھے لیکن کاظم انکل زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ جب وہ ہمارے بچپن میں اپنی گاڑی ہمارے گھر کے سامنے روک کر باہر نکلتے تو کافی چست اور دلکش دکھائی دیتے تھے، لیکن اب وہ کافی بدل گئے تھے، پہچانے بھی نہیں جا رہے تھے۔ بہرحال، میں نے بالکل بھی ظاہر ہونے نہیں دیا کہ ان کی صحت کافی گرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور میں ان سے نارمل انداز میں گرم جوشی سے بات کرنے لگا۔ اسی دوران انہوں نے جیسے چور نظروں سے پیچھے بنچ کی طرف دیکھا اور کہا، "بیٹا، اگر آپ کی نظر میں انیس کے لیے کوئی چھوٹا موٹا کام ہو تو بتانا... پیسوں کا کوئی خاص مسئلہ نہیں، میری پنشن آ جاتی ہے، گھر چل رہا ہے، بس میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ کہیں آئے جائے روز، مصروف رہے بس، کوئی آسان سا کام ہو جو یہ کر سکے، زیادہ ذہنی مشقت والا نہ ہو... دراصل اس کے ساتھ تھوڑا ذہنی مسئلہ ہے، لوگوں میں گھلنے ملنے سے تھوڑا گھبراتا ہے، غصہ بھی تیز ہے تھوڑا، ... مطلب چڑچڑا ہے تھوڑا... وہ... میرا مطلب ہے آپ اچھی پوسٹ پر ہو بیٹا، بہت خوشی ہوئی آپ کو دیکھ کر... اگر آپ کی نظر میں کوئی کام ہو اس کے لیے تو ضرور بتانا"۔ بھائی کا کہنا تھا کہ میں نے بنچ کی طرف دیکھا، جس شخص کو وہ انیس کہہ رہے تھے، اگر اس کا تعارف نہ کرواتے، تو میں کبھی نہیں پہچان پاتا۔ وہاں ایک کمزور سا شخص بیٹھا تھا، جس کی داڑھی اور سر کے بال بے ترتیب تھے۔ وہ عجیب و غریب انداز میں اپنی انگلیوں پر جیسے ہر تھوڑی دیر بعد کچھ گن رہا تھا اور ارد گرد والوں کو ایک نظر غصے سے دیکھ کر پھر سر جھکا کر جیسے کچھ گننے میں مشغول ہو جاتا۔ بھائی جان کا کہنا تھا کہ یہ میری زندگی کا 36  سالوں کا سب سے زیادہ اذیت ناک لمحہ تھا۔ مجھے بہت شدید دکھ ہوا۔ جب تک انیس کو نہیں دیکھا تھا، میں یہی سمجھتا تھا کہ وہ جو ہر کلاس میں اول آنے والا بچہ تھا، آج یقیناً بہت کامیاب زندگی گزار رہا ہو گا لیکن حقیقت نہایت کرب ناک تھی۔ میں اُس وقت خود کو اس کے والد کی طرح بے بس محسوس کر رہا تھا، اور انہیں کچھ رسمی انداز میں جھوٹی تسلیاں دے کر رخصت ہو گیا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ انیس کو کوئی بڑا نفسیاتی عارضہ لاحق تھا جس کی وجہ سے اس کی ذمہ داری لینے کو کوئی بھی تیار نہ تھا۔ والدین بے شک خلوص کی آخری حد تک جا کر اپنے بچوں کی بہتری کا سوچتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حد سے زیادہ سختی انہیں نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے۔








(Sender: Zam***)

Post a Comment

0 Comments